1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، افغانستان میں دولت اسلامیہ کی تشہیری مہم

فرید اللہ خان، پشاور3 ستمبر 2014

ایسے وقت پر جب افغانستان میں صدارتی انتخابات ہو چکے اور غیر ملکی فوجیں وہاں سے واپسی کی تیاریوں میں ہیں، شام اور عراق میں سرگرم دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے افغانستان اور پاکستان میں اپنی تشہیری مہم شروع کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1D5vM
تصویر: DW/F. Khan

یہ مہم پاکستان کے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں بھی پہنچ چکی ہے، جہاں لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین آباد ہیں۔ پشاور، نوشہرہ اور دیگر علاقوں میں افغان مہاجرین کی بستیوں میں دولت اسلامیہ کی جانب سے تقسیم کیے جانے والے کتابچے میں عوام کو خلافت کے قیام کی حمایت کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ان عسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ وہ خراسان میں خلافت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کریں گے، جس میں پاکستان، افغانستان، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک شامل ہوں گے۔ پشتو اور فارسی میں چھاپے گئے اس کتابچے میں افغان باشندوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔

افغانستان کے دو جہادی گروہ اس تنظیم کی حمایت کرنے پر غور کررہے ہیں جبکہ پاکستان میں بھی کئی مسلح گروپ مبینہ طور پر خلافت کے قیام کے حامی ہیں۔ پاکستان نے 15جون کو شمالی وزیرستان میں موجود عسکریت پسند گروپوں کے خلاف آپریشن شرو ع کیا تھا، جس کی وجہ سے طالبان کی کارروائیاں ماند پڑ گئیں تاہم طالبان کے اتحادیوں میں سے بعض نے جماعت الاحرار کے نام سے ایک نئی تنظیم بنائی ہے۔

اگرچہ یہ تنظیم افغان طالبان کے سربراہ مُلا محمد عمرکو اپنا لیڈر سمجھتی ہیں لیکن وہ بھی خلافت کے لیے جدجہد کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی داعش کی کوششوں کو بھی سراہا گیا ہے۔ پاکستان اور بالخصوص پاکستانی قبائلی علاقوں میں کیا دولت اسلامیہ کی یہ مہم کامیاب ہو سکے گی اور اس کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں، اس بارے میں افغان اُمور کے ماہر شمس مہمند نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”قبائلی علاقوں کے عوام کی محرومیوں نے اس علاقے میں القاعدہ سے لے کر طالبان تک ایسی تنظیموں کو قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔

Peshawar Pamphlet
پشاور، نوشہرہ اور دیگر علاقوں میں افغان مہاجرین کی بستیوں میں دولت اسلامیہ کی جانب سے تقسیم کیے جانے والے کتابچے میں عوام کو خلافت کے قیام کی حمایت کرنے کے لیے کہا گیا ہےتصویر: DW/F. Khan

پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف کارروائی تو کی جاتی ہے، لیکن اس کارروائی سے متاثرہ لوگوں کی مدد نہیں کی جاتی۔ قبائلیوں کو تیس سال سے محروم رکھا گیا ہے۔ غربت، پسماندگی اور حکومتی اداروں کی بے حسی نے انہیں اس طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا ہے کہ یہ لوگ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ اس کی وجہ سے یہاں باہر سے آنے والے اپنے مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔“ ماہرین کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کے بعد ان کے بعض اتحادی منتشر ہوئے ہیں۔ ایسے میں ان میں سے بعض کی جانب سے دولت اسلامیہ کے موقف کے سپورٹ کیے جانے کا امکان موجود ہے۔

دوسری جانب معروف تجزیہ نگار اقبال خٹک نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”پاکستان میں اس طرح کی سوچ اور نظریہ رکھنے والے گروپ موجود ہیں، اگر چہ یہ گروپ چھوٹے ہیں لیکن فی الوقت داعش ان کی حمایت حاصل کر کے آگے بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان اس طرح کے گروپوں کا راستہ تب روک سکے گا جب عوام کی محرومیوں کا ازالہ کیا جا سکے۔

آپریشن کے بعد عوام کو ہنگامی بنیادوں پر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں اور پسماندہ قبائلی علاقوں کو ملک کے دوسرے حصوں کے برابر لایا جائے۔“ پاکستان ایک کے بعد دوسرے قبائلی علاقے میں آپریشن کرتا ہے لیکن اس کے باوجود عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں پر مؤثر انداز میں قابو پانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ شمس مہمند کہتے ہیں، ”جب تک حکومت قبائلی علاقوں کے عوام کو برابری کی بنیاد پر سہولیات کی فراہمی کے لیے اقدامات نہیں اٹھائے گی، حالات اسی طرح رہیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں ایک طرف سہولیات کا فقدان ہے اور دوسری جانب دہشت گردی اور اس کے خلاف آپریشن، بمباری اور جنگ کے ماحول نے نوجوانوں کا رُخ بھی اس طرف موڑ لیا ہے۔

اگر حکومت نے اس کے مکمل خاتمے اور ایسی تنظیموں کا راستہ روکنے کے لیے اقدامات نہ کیے تو یہ خدشہ موجود ہے کہ اس طرح کی تنظیموں کو عوامی حمایت حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی گی۔“

پاکستان نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن شروع کیا، جس کی وجہ سے دس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے جو مسلسل اپنے گھروں کو واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ آئے روز بنیادی سہولیا ت کی فراہمی کےلیے بھی احتجاج کرتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں