1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک بھارت مذاکرات میں پانی ایک اہم موضوع

15 جولائی 2010

آج اسلام آباد میں بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا اور اُن کے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کے درمیان ہونے والی بات چیت میں دہشت گردی اور کئی دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ پانی کے مسئلے کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

https://p.dw.com/p/OJdQ
ایس ایم کرشنا (بائیں) اسلام آباد میںتصویر: AP

واشنگٹن میں قائم وُڈرو وِلسن انٹرنیشنل سینٹر فار سکالرز کی سن 2008ء کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 1950ء کے عشرے میں دستیاب پانی کی فی کس مقدار پانچ ہزار کیوبک میٹر ہوا کرتی تھی، جو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوکر اب پندرہ سوکیوبک میٹر سے بھی کم رہ گئی ہے۔

پانی کی مقدار میں اِس کمی کی بے شمار وجوہات میں پانی کی طلب اور آبادی میں ہونے والا بے تحاشا اضافہ اور ہمالیہ کے پہاڑوں پر برفباری کی کمی بھی شامل ہیں۔ پانی کی غیر منصفانہ تقسیم اور اِس کے انتظام و انصرام میں روا رکھی جانے والی نا اہلی نے بھی پانی کی قلت کو شدید تر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

Pakistan Landwirtschaft Reisanbau
لاڑکانہ کے قریب پاکستانی کاشتکار چاول کاشت کر رہے ہیں تاہم پانی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قلت کے باعث کاشتکاروں کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیںتصویر: AP

تاہم پاکستان میں بہت سے لوگ اِس صورتحال کا ذمہ دار اپنے طاقتور مشرقی ہمسایہ ملک بھارت کو قرار دیتے ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے آج اپنے ایک خصوصی جائزے میں شمالی پنجاب کے ایک پاکستانی کسان غلام سرور کی مثال دی ہے، جس کا خاندان پچاسی ایکڑ اراضی کا مالک ہے۔ غلام سرور نے بتایا کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں اِس سال اُنہیں اپنی فصلوں کے لئے کم پانی ملا، فصلوں سے ہونے والی آمدنی ہر سال کم ہوتی جا رہی ہے اور یہ کہ پانی کی قلت نے اُن کے خاندان کے پچاس فیصد کاروبار کو متاثرکیا ہے۔

غلام سرور نے اے ایف پی کو بتایا کہ پچھلے دو تین برسوں میں اُن کی زمینوں کی پیداوار میں پچاس فیصد کمی ہوئی ہے اور اگر یہی صورتحال جاری رہی تو اگلے دَس برسوں کے اندر اندر یہ شرح بڑھ کر پچھتر فیصد تک جا پہنچے گی۔ اِس پاکستانی کاشتکار کے خیال میں یہ مسائل محض بھارت کے ساتھ جنگ کی صورت میں ہی حل ہو سکتے ہیں۔

Himalaya-Massiv mit Mount Everest
پانی کی قلت کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اب ہمالیہ کی چوٹیوں پر برفباری بھی کم ہوتی ہے اور وہاں کے گلیشیئرز بھی پگھلنا شروع ہو گئے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

کچھ ایسے ہی خیالات انتہا پسند گروپوں کے بھی ہیں، جو بھارت پر پانی کی چوری کا الزام عائد کرتے ہیں۔ اے ایف پی ہی سے باتیں کرتے ہوئے تنظیم جماعت الدعوۃ کا کہنا تھا کہ صرف جہاد ہی کی مدد سے اِس بات کو ممکن بنایا جا سکتا ہے کہ بھارت پاکستان کو پانی فراہم کرنا شروع کر دے۔ اِس رفاہی تنظیم کو ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والی کالعدم تنظیم لشکر طیبہ ہی کی ایک شکل قرار دیا جاتا ہے۔

دوسری جانب بھارت غیر منصفانہ طریقے سے پانی کا رُخ اپنے ڈیموں کی جانب کرنے کے الزام کو سختی سے رَد کر رہا ہے۔ بھارتی تجزیہ کاروں کے خیال میں پاکستان اپنے ہاں پانی کی بد انتظامی اور توانائی کے بحران سے توجہ ہٹانے کے لئے بھارت پر اِس طرح کی الزام تراشی کرتا رہتا ہے۔

کسانوں کے نمائندہ ادارے پنجاب واٹر کونسل کے رابطہ کار حمید لودھی کے مطابق پاکستان کے خدشات دور کرنے کے لئے فوری مذاکرات کی ضرورت ہے۔ بھارت کے ساتھ ملنے والی واہگہ سرحد کے نزدیک ایک گاؤں کے کسان محمد شریف نے کہا:’’اگر پاکستانی حکومت بھارت کے ساتھ پانی کا مسئلہ اٹھاتی ہے تو ہم اُس کے بہت شکر گزار ہوں گے۔‘‘

رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے

ادارت: امجد علی