پاک بھارت تعلقات: تناؤ کی کیفیت
21 دسمبر 2008ممبئی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے پاکستان بھارت تعلقات میں سرد مہری اور کشیدگی پیدا کر دی ہے۔ روایتی حریف جانے جانے والے ان دونوں ممالک کے حکمرانوں کے درمیان تیکھے لفظوں کا تبادلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال بھارتی وزیر خارجہ پرناب مکھرجی کا تازہ بیان اور پھر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ردعمل ہے۔
پاکستان متضاد بیانات نہ دے: اس بیان میں انہوں نے اسلام آباد حکومت کی طرف سے ممبئی حملوں میں ملوث کالعدم تنظیموں کے خلاف فوری کارروائی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اب یہ تسلیم کر لے کہ وہ دھشت گرد پاکستان سے آئے تھے اور متضاد بیانات دینے بند کرے۔
پرناب مکھرجی کے اس بیان پر پاکستان سے فوری رد عمل میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہے لیکن اگر بھارت نےجنگ مسلط کی تو پاکستانی فوج بھر پور دفاع کرے گی۔ ’’ جملے کسنا آسان ہوتا ہے ہمیں ہوش سے کام لینا ہے۔ حکومت پاکستان کی پالیسی بھی ہوشمندانہ ہے۔‘‘
پاکستان کی خارجہ پالیسی پر سوالات: پاکستان میں موجود مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بھارتی اور بین الاقوامی پریشر کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی خارجہ اور سفارتی پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں گی۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سر براہ ریٹائرڈ جنرل حمید گل کا کہنا ہے کہ پاکستان کو مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کے ساتھ متحرک سفارت کاری کرنا ہو گی۔
میڈیا کا کردار: جہاں ایک طرف خارجہ پالیسیوں پر تنقید ہو رہی ہے تو دوسری طرف آزاد مبصرین دونوں ممالک کے ذرائع ابلاغ کے کردار پر بھی انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کے دوران معروف صحافی محمد حنیف کا کہنا تھا کہ دونوں کا اپنا اپنا ایجنڈہ تھا،جس کے تحت انہوں نے حکومتوں کو جنگ کے دہانے پر کھڑا کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان اور بھارت پہلے بھی کئی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین سب سے بڑا تنازعہ مسئلہ کشمیر ہے۔ موجودہ حالات و واقعات جس ڈگر پر چل رہے ہیں اس سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو نہ ہو، قیام امن کی کوششوں کو نقصان ضرور پہنچا ہے۔