1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پام آئل کی بڑھتی مانگ، ماحول کیلئے بے پایاں نقصانات

27 دسمبر 2010

دُنیا بھر میں پام آئل کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لئے وسیع رقبے پر پھیلے اُستوائی جنگلات کاٹے جا رہے ہیں اور صرف اور صرف پام کے درخت لگائے جا رہے ہیں، جس سے حیاتیاتی تنوع بھی خطرے سے دوچار ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/zq0r
تصویر: Marta Barroso

ایک اندازے کے مطابق اگلے دَس برسوں کے اندر اندر دُنیا بھر میں پام آئل کی مانگ دگنی ہو جائے گی۔ اِس مانگ کو پورا کرنے کے لئے صرف انڈونیشیا ہی میں ہر سال وسیع رقبے پر پھیلے اُستوائی جنگلات کا صفایا کر دیا جاتا ہے اور وہاں صرف اور صرف پام کے درخت لگا دئے جاتے ہیں۔ خدشہ ہے کہ جلد ہی یہ صورتِ حال ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے دیگر ملکوں میں بھی نظر آنا شروع ہو جائے گی۔

کاسمیٹک مصنوعات ہوں، مٹھائیاں ہوں یا پھر فیکٹریوں میں تیار ہونے والی دیگر اَشیائے خوراک، مغربی دُنیا کے صارف معاشرے میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں، جن میں پام آئل استعمال کیا جاتا ہے۔ خوراک سے متعلق جرمن صنعت کی وفاقی تنظیم کے نمائندے پیٹر فیلر بتاتے ہیں:’’پام آئل گرم کرنے اور جلانے کے عمل کے دوران زیادہ مستحکم رہتا ہے۔ اِس میں کچھ ایسی خصوصیات ہیں، جو پودوں سے حاصل ہونے والے کسی دوسرے تیل میں نہیں ہوتیں اور صنعتی شعبے کے لئے تو اِس کا استعمال ناگزیر ہے۔‘‘

Palmöl Plantage in Aceh
انڈونیشیا میں پام کے درختتصویر: Vidi Athena Dewi Legowo

پام آئل کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک ہیکٹر میں اِس کی پیداوار تیل فراہم کرنے والے دوسرے پودوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے، چنانچہ اِسے خریدنا بھی سستا پڑتا ہے۔ لیکن پام آئل جتنا صنعتی شعبے کے لئے مفید ہے، اُتنا ہی یہ ماحول کے لئے نقصان دہ بھی ہے۔ تحفظ ماحول کی علمبردار جرمن تنظیم جرمن واچ سے وابستہ کلیمینز فان ڈیئر زانڈ بتاتے ہیں:’’اِس سے حیاتیاتی تنوع پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جہاں صرف پام کے درخت ہوتے ہیں، وہاں آپ کو اُستوائی جنگلات کے مقابلے میں پرندوں کی صرف دَس فیصد اَقسام ملیں گی۔ ایسا خاص طور پر انڈونیشیا کے قدیم دلدلی جنگلات میں ہو رہا ہے، جہاں یہ جنگلات آگ لگا کر تباہ کر دئے جاتے ہیں۔ اِس عمل کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بھاری مقدار خارج ہوتی ہے۔‘‘

اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اِس اخراج کا بھی ساتھ حساب لگایا جائے تو انڈونیشیا، جو پوری دُنیا میں پام آئل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے اعتبار سے چین اور امریکہ کے بعد دُنیا کا سب سے بڑا ملک بن جاتا ہے۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ انڈونیشیا کے ساتھ ساتھ اب تھائی لینڈ، کولمبیا، برازیل، نائیجیریا، لائبیریا اور یوگنڈا جیسے ممالک میں بھی وسیع رقبوں پر صرف اور صرف پام کے درخت لگانے کے منصوبے جاری ہیں۔

Torfwald abgeholzt für Palmöl – Sumatra
سماٹرا میں ایک بڑے رقبے پر پام کے پیڑ لگانے کے لئے جنگلات کا صفایا کر دیا گیاتصویر: cc/ H Dragon

مغربی دُنیا میں پام آئل کی مانگ اِس لئے بھی بڑھے گی کہ اب اسے زیادہ سے زیادہ توانائی کے حصول کے لئے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔ سن 2003ء سے توانائی کے شعبے میں استعمال کے لئے صرف وہ پام آئل یورپ میں لایا جا سکتا ہے، جس کی پیداوار اور تیاری میں ماحول دوست طریقے استعمال کئے گئے ہوں تاہم تحفظ ماحول کی علمبردار تنظیمیں نگرانی اور کنٹرول کے اِس عمل سے مطمئن نہیں ہیں۔

جرمن واچ کے کلیمینز فان ڈیئر زانڈ کہتے ہیں:’’اہم بات یہ ہے کہ چیکنگ کے عمل میں زیادہ سرمایہ کاری کی جائے۔ دُنیا بھر میں پام آئل کے کاروبار کا مالیاتی حجم تیس ارب ڈالر سے زیادہ بنتا ہے جبکہ چیکنگ کے نظام پر صرف پانچ لاکھ ڈالر سالانہ خرچ کئے جاتے ہیں۔ اِس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔‘‘

خصوصی سرٹیفیکیٹ کی پابندی صرف اُس دَس فیصد پام آئل کے لئے ہے، جو توانائی کے حصول کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جو 90 فیصد پام آئل اَشیائے خوراک کی صنعت میں استعمال ہوتا ہے، اُس کے لئے ایسا کوئی سرٹیفیکیٹ دکھانے کی ضرورت نہیں ہے، جس سے پتہ چلتا ہو کہ اِس تیل کی تیاری سے ماحول کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ دُنیا بھر میں سالانہ پچاس ملین ٹن پام آئل استعمال کیا جاتا ہے۔ آج کل اِس میں سے ماحول دوست طریقوں سے تیاری کا سرٹیفیکیٹ صرف چار ملین ٹن تیل کے لئے جاری ہو رہا ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں