1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹیکس چوروں اور اُن کے خفیہ اثاثوں کے خلاف دیرینہ جنگ

کشور مصطفیٰ6 اپریل 2016

پاناما کی لاء فرم موزیک فونسیکا کی جمع کردہ خفیہ معلومات پر مشتمل پاناما پیپرز کے شائع ہونے کے بعد سے ٹیکس چوری کرنے والے اور دوسرے ممالک میں جعلی کمپنیوں کے مالکان کو ایسے مزید انکشافات کے خطرات کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IQIa
تصویر: picture-alliance/maxppp/J. Pelaez

دنیا کے ایسے ممالک کی فہرست تیار کرنے کی کوششیں 1998ء میں ہی شروع ہو گئی تھیں جہاں ٹیکس کے قوانین سے متعلق مقابلے کی دوڑ میں منصفانہ طرز کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس ضمن میں صنعتی ممالک کی تنظیم او ای سی ڈی OECD نے ٹیکس ٹھکانوں کے خلاف ایک نام نہاد پیش قدمی شروع کی تھی جس کا نام’’ہارم فُل ٹیکس کومپیٹیشن‘‘ یا خطرناک ٹیکس مقابلہ رکھا گیا تھا۔ اس پر جلد ہی او ای سی ڈی کے رُکن ممالک سوئٹزرلینڈ،آسٹریا، بیلجیم، اور لکسمبرگ کی طرف سے شدید غُصے اور ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔ ان ممالک کو اپنے بینکوں کی خفیہ معلومات کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ ہوا تو انہوں نے مطالبات میں کچھ نرم کا فیصلہ کیا۔

2005 ء میں یورپی ممالک میں بچت پر ٹیکسوں سے متعلق قوانین کی منظوری پر ان چاروں یورپی ممالک نے بھرپور مزاحمت کی۔ طے شدہ منصوبے کے تحت آبائی ملکوں میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے کوائف کی وسیع فراہمی کی بجائے ان ممالک نے ایک متبادل صورت نکال لی۔ یعنی غیر ملکی سرمایہ کاری سے ہونے والے منافع پر ایک نام نہاد ہولڈنگ ٹیکس متعارف کروایا۔ اس طرح ٹیکس وصولی کے لیے کوائف کے تبادلے کے عمل میں شفافیت کی کوششیں ادھوری ہی رہ گئیں۔

Symbolbild Briefkastenfirma
بہت سی بڑی فرموں نے جعلی کمپنیوں کا اندراج کروا رکھا ہےتصویر: picture-alliance/ZB/J. Büttner

عالمی اقتصادی بحران کا دباؤ

2009 ء میں بین الاقوامی مالیاتی بحران کے زیر اثر ٹیکس چوری کے خلاف جنگ اور عام قوانین کے حوالے سے ایک نئی تحریک ابھر کر سامنے آئی۔ پبلک یا سرکاری فنڈز کو فوری طور پر مالی کمک کی ضرورت پیش آئی کیونکہ وہ بینکوں کے بیل آؤٹ کے اخراجات کے بوجھ تلے دب گئے تھے۔ تعاون سے انکار کرنے والے OECD کے ممبر ممالک نے ’بیلک لسٹ‘ میں نام شامل کیے جانے کے خوف سے لشٹن اشٹائن، آنڈورا اور موناکو جیسے ممالک جنہیں ٹیکس چوروں کا سیف ہیون کہا جاتا ہے، بینک رازداری سے متعلق خفیہ کوائف کی سختی میں کسی حد تک نرمی لانے کا فیصلہ کیا۔

بینک رازداریوں کا خاتمہ

29 اکتوبر 2014 ء کو دنیا کے 51 ممالک نے بینک رازداری کا سلسلہ ختم کرنے کا عملی طور پر فیصلہ کر لیا۔ ان سب نے یورپی اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم او ای سی ڈی کے معیارات کو بنیاد بنا کر ایک معاہدہ تیار کیا گیا جس پر ان 21 ممالک نے دستخط کر دیے تاہم اس معاہدے پر 100 ممالک نے دستخط نہیں کیے لیکن انہوں نے اس مسودے میں درج اقدامات کی حمایت کی۔

Parlament Gebäude in Lichtestein
ٹیکس چوری اور سرمایہ کاری کے غیر قانونی کاروبار کے سلسلے میں یورپ کا یہ چھوٹا سا ملک لشٹن اشٹائن مشہور ہےتصویر: DW/Manych

دستخط کنندہ ممالک میں دنیا کے مالیاتی مراکز کی حیثیت رکھنے والے ممالک سوئٹزرلینڈ، لشٹن اشٹائن اور سنگاپور کے علاوہ متعدد مختلف کیریبیئن ممالک اور رودبار جزائر بھی شامل تھے۔ یہی وہ علاقے ہیں جہاں سب سے زیادہ جعلی یا محض کاغذ پر وجود رکھنے والی کمپنیاں قائم ہیں۔

دریں اثناء جرمنی کی معروف نیوز ویب سائٹ ’اشپیگل آن لائن‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں شائع کیا ہے کہ پاناما نے ابھی غیر ملکی سرمایہ کاری کی ٹیکس چوری اور جعلی کمپنیوں کے اندراج کے انسداد کے لیے معلومات کے تبادلے کے سلسلے میں یورپی یونین کے معیارات کو اُسی طرح نظر انداز کیا جس طرح امریکا نے۔ ’اشپیگل آن لائن‘ کی اطلاعات کے مطابق شروع شروع میں پاناما نے یورپی معاہدے کے تحت شفافیت کے اس عمل میں شامل رہنے پر رضامندی ظاہر کی تھی تاہم امریکا کی طرف سے اس بارے میں عدم تعاون کے اظہار اور انکار کے بعد پاناما بھی مُکر گیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں