ٹیسٹ کرکٹ میں ٹیکنالوجی کا ٹیسٹ
23 جولائی 2008کیا کرکٹ کی دُنیا میں میدان میں کھڑے امپائر کا فیصلہ حتمی رہ گیا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب سری لنکا اور بھارت کی موجودہ ٹیسٹ سیریز کے دوران مل سکتا ہے۔
کرکٹ سے پہلے ٹینس میں کھلاڑی کو امپائرنگ کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا تھا جو خاصا کامیاب تجربہ ثابت ہوا۔ فٹ بال میں بھی ٹیکنالوجی کے استعمال کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے مگر ابھی اس سلسلے میں کوئی بڑا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
بھارت اور سری لنکا کے درمیان موجودہ ٹیسٹ کرکٹ سیریز میں امپائر کے فیصلوں کو کھلاڑی اورفیلڈنگ کپتان چیلنج کرسکتے ہیں اور میدان سے باہر بیٹھے ہوئے تیسرے امپائر کو اُس اپیل پر حتمی فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
تھرڈ امپائر کو اُس آلے کی مدد حاصل نہیں ہو گی جو بلے اور گیند کی انتہائی معمُولی ملاقات کو بھی محسوس اور سننے کے بعد ریکارڈ کرسکتا ہے۔ اِس کو سنِکو میٹر کہا جاتا ہے۔
ٹیکنالوجی کے استعمال کےحوالے سے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی خواہش تھی کہ اِس کا استعمال جنوبی افریقہ اور انگلینڈ کے درمیان جاری سیریز سےہو مگر انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کےبورڈز اس پر رضامند نہیں ہوئے۔ اِس کےعلاوہ انگلینڈ میں کھیلی جانےوالی کاؤنٹی کرکٹ چیمپئن شپ میں بھی استعمال کی گئی مگر کوئی خاطر خواہ نتائج کی حامل نہیں تھی۔
اگر بھارت اور سری لنکا کی ٹیسٹ سیریز میں ٹیکنالوجی کے استعمال کا تجزبہ کامیاب رہا تو پھر اِس کا استعمال عام ہو سکتا ہے۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان انیل کمبلے اور سریلنکا کی ٹیم کے کپتان مہلا جے وردھنے نے اِس کے استعمال کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
اِس سیریز میں ٹیکنالوجی کے استعمال کی کامیابی کےحوالے سے پہلی بار بائیس کیمرے نصب کئے گئے ہیں۔ اِس میں ہر زاویے سے کھیل کو ریکارڈ کیا جائے گا۔ ایل بی ڈبلیُو کی خاطر کئی پہلؤووں سے کیمرے کا استعمال ہو گا۔ تھرڈ امپائر کو حتمی فیصلہ کرتے ہوئے اپنی آنکھ کا سہارا بھی لینا ہو گا کہ باؤلر کی گیند فیلڈ پر کہاں گری ہے اور اُس کا گرنے کے بعد رُخ کس جانب ہو سکتا تھا۔ ایک ٹیم کو تین اپیلوں کا حق دیا گیا ہے۔
عالمی کرکٹ کونسل، آئی سی سی کے قائم مقام چیف ایکزیکٹیو ڈیو رچرڈسن نے امپائر ریفرل سسٹم کو ایک ریویو پروسیس قرار دیا یعنی ایک ایسا عمل جس کے ذریعے امپائر کے کسی بھی متنازعہ فیصلے کو دوبارہ دیکھا جاسکتا ہے اور پھر صحیع فیصلہ دیا جاسکے۔ رچرڈسن نے کہا کہ بیشتر امپائر نئی ٹیکنالوجی کے حق میں ہیں کیوں کہ مقصد صرف یہ ہے کہ غلط فیصلوں سے بچا جا سکے۔