1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹی وی ڈرامے بھی پاکستانیوں کے ذہنی مسائل کی ایک وجہ؟

18 فروری 2024

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ذہنی بیماریوں اور دماغی صحت کے مسائل سے دوچار شہریوں کی تعداد چوبیس ملین سے زائد ہے، جن کے لیے ملک بھر میں رجسٹرڈ ماہرین نفسیات کی تعداد صرف پانچ سو ہے۔

https://p.dw.com/p/4cXfd
Symbolfoto Burnout Streiholz Rauch
تصویر: Christoph Hardt/Geisler-Fotopress/picture alliance

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اعداد و شمار کے مطابق آبادی کے لحاظ سے دنیا کے اس پانچویں سب سے بڑے ملک میں نفسیاتی عارضوں کے شکار افراد اور پیشہ ور نفسیاتی معالجین کی تعداد میں تناسب کو دیکھا جائے تو ہر اڑتالیس ہزار مریضوں کے لیے صرف ایک ماہر معالج دستیاب ہے۔ اسی طرح اگر پورے ملک کی مجموعی آبادی اور رجسٹرڈ ماہرین نفسیات کی تعداد کو دیکھا جائے تو یہ شرح تقریباﹰ نصف ملین شہری فی معالج بنتی ہے۔

علمی آزادی نہ ہو تو ذہن بنجر ہو جاتا ہے

زندگی میں کامیابیاں بھی خودکشی پر مجبور کر سکتی ہیں

ذہنی صحت کے بہت سے ماہرین کے مطابق اقتصادی، مالی اور سیاسی بحرانوں کے شکار اس ملک میں غربت، شدید مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل تو عوام کے لیے نفسیاتی مشکلات کی وجہ بنتے ہی ہیں، لیکن ایک وجہ ایسی بھی ہے جو تفریح کے نام پر مگر اپنے منفی اثرات کے باعث ذہنی امراض میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ 

پاکستان میں نجی ٹی وی اداروں کی تعداد درجنوں میں ہے جو اپنے ناظرین کے لیے خبریں نشر کرنے کے علاوہ تفریح کے لیے ڈرامے بھی نشر کرتے ہیں۔ ملک میں تفریحی نشریاتی شعبہ روز بروز ترقی کر رہا ہے، جس کی پیداوار میں بہت منفرد موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایسے تفریحی پروگراموں اور ڈراموں کی تیاری میں ناظرین کی حساسیت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا اور ماہرین اس پہلو پر مسلسل تشویش کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ 

ناقدین کا دعویٰ ہے کہ ملک میں کام کرنے والے ٹی وی پروڈکشن ہاؤسز منافع تو بہت کماتے ہیں لیکن ان کے تیارہ کردہ ڈراموں میں اسکرپٹ یا ریکارڈ شدہ مواد کی ایڈیٹنگ اور مانیٹرنگ پر توجہ کم ہی دی جاتی ہے اور یہ امر شائقین کی نفسیاتی صحت کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہو رہا ہے۔

عوامی تفریح کے ایک اہم ذریعے کے طور پر ٹیلی وژن کی کارکردگی پر تنقیدی نظر رکھنے والی مہوش خان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”ابلاغ عامہ کے کسی بھی ذریعے کی تعریف ایک ایسے میڈیم کے طور پر کی جاتی ہے، جو لوگوں کی بڑی تعداد کو مختلف طرح کے کرداروں کے ذریعےمعلومات پہنچاتا ہو۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جو میڈیم بڑے مؤثر طریقے سے ملک سے جہالت کا خاتمہ کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے، وہی جہالت پھیلانے کا موجب بن رہا ہے۔‘‘

Pakistan | türkische TV Serie Dirilis Ertugrul
پاکستان میں ڈرامہ انڈسٹری ترقی کر رہی ہےتصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance

مہوش خان نے اپنے موقف کے حق میں مثالیں دیتے ہوئے بتایا، ’’عورت دشمن رویے، ساس بہو کے جھگڑے، سالی، دیور یا باس کے ساتھ عشق اور تعصب تو پاکستانی ٹی وئ ڈراموں میں عام سی باتیں ہیں۔ عورت کو محکوم دکھا کر اس کو اصل زندگی میں بھی محکوم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ماضی میں ’’تنہائیاں‘‘، ’’شہزوری‘‘ اور کئی دیگر بہت پسندیدہ ڈرامے ایسے بھی تو تھے جن میں لڑکیوں کو مضبوط، فیصلہ کن رویوں کی مالک اور زندگی سے بھرپور دکھایا جاتا تھا۔ تو اس وقت معاشرے میں یہی سب کچھ رواج پاتا بھی دیکھا گیا۔ ایسی الیکٹرانک تفریح کے لیے تحریری مواد کے معیار میں جتنا زوال اب دیکھا جا رہا ہے، پہلےکبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔"

ماہر عمرانیات ذوالفقار راؤ نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”اس مسئلے کو سمجھنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ڈرامہ فنون لطیفہ ہی کی ایک قسم ہے، جو انہی حقائق کا ایمان دارانہ مظہر ہوتا ہے جو معاشرے میں دیکھے جا رہے ہوں۔ اسی بات کو سمجھنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر ہمارے معاشرے میں جنسی تشدد یا مثلاً اقلیتوں یا دیگر کمزور طبقات پر ظلم ہو رہا ہے، تو وہ انفرادی کہانیوں میں بھی نظر آئیں گے۔ ڈراموں میں بھی دکھائی دیں گے کیونکہ مصنف تو یہ دکھائے گا ہی۔ اس لیے یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سب کچھ کیوں دکھایا جا رہا ہے؟ یہ سوال لیکن ہمیشہ پیدا ہونا چاہیے  کہ یہ سب کچھ جس طرح دکھایا جانا چاہیے، کیا اسی طرح دکھایا جا رہا ہے؟ مطلب یہ پوچھنا ضروری ہے کہ جو کچھ جیسے دکھایا جا رہا ہے، کیا وہی بالکل درست راستہ ہے؟‘‘ 

ذوالفقار راؤ نے مثالوں سے وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ’’ہمارے ہاں ڈراموں میں اکثر عورت کا غیرت کے نام پر قتل، عورتوں یا بچوں کو تھپڑ مارنا یا ظلم و زیادتی دکھانا اور پھر یہ تاثر دینا کہ یہ سب درگزر کیا جا سکتا ہے، یہ سراسر غلط بات ہے۔ اس سے ناظرین کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔ ان میں ڈپریشن اور بے چینی میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کس قسم کا مواد دیکھا جا رہا ہے اور دیکھنے والے کے ذاتی اور سماجی تجربات کیا ہیں اور نفسیاتی صحت کیسی ہے؟ ناظر پہلے ہی ڈپریشن کا شکار ہو، تو وہ سوچے گا کہ جو ظلم اس کے ساتھ ہو رہا ہے وہی سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر یہی بات اس کے ذہن میں پختہ ہو جائے گی، مایوسی بڑھے گی اور ذہنی مسائل شدید ہونے لگیں گے۔‘‘

فوجیوں کی بھلا کیا کرسمس!

 بحریہ یونیورسٹی کے اسکول آف سائیکالوجی کی پرنسپل اور مینٹل ہیلتھ ایکسپرٹ ڈاکٹر صائمہ کلثوم نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ جس قسم کی ٹی وی ڈرامہ پروڈکشن آج کل ہو رہی ہے، وہ عوام کی ذہنی صحت  کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ کامیڈی کے طور پر جو مواد ناظرین کو پیش کیا جا رہا ہے، وہ فحش گوئی پر مبنی ہوتا ہے۔ ایک طرف عورت کو بااختیار بنانے کی بات کی جاتی ہے، تو دوسری جانب عورت کو بہت کمزوراور مظلوم بھی دکھایا جا رہا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں تو مرد بھی مظلوم ہے، وہ تو کہیں نہیں دکھایا جاتا۔‘‘

ماہر نفسیات صائمہ کلثوم نے کہا، ”انسان کی اگر ذہنی صحت نارمل نہیں ہو گی، تو وہ تشویش اور خوف کا شکار ہو جائے گا۔ ڈراموں کے کرداروں میں خود کو دیکھنے لگے گا۔ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ساس کو ظالم دکھایا جاتا ہے،  تو میڈیا پر اکثر خواتین یہی کہتی دکھائی دیتی ہیں کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔ تو اگر تفریحی میڈیا ایسا مواد مسلسل نشر کرتا رہےگا، تو عام شہریوں کی ذہنی اور نفسیاتی الجھنیں بڑھتی ہی رہیں گی۔"

ڈاکٹر صائمہ کلثوم مزید کہتی ہیں، ’’اب غیر ازدواجی جنسی تعلقات بھی عام سی بات لگنے لگے ہیں کیونکہ ایسا مواد دیکھ دیکھ کر ذہن سازی ہو چکی ہے۔ جنسی طور پر ہراساں کیا جانا بھی ہر طرف دکھائی دیتاہے۔ تو پھر مردوں سے نفرت  عام کیوں نہ ہو؟ لہٰذا اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) تمام پروڈکشن کمپنیوں کو مانیٹرنگ کی مدد سے متوازن مواد نشر کرنے کا پابند بنائے۔ ایسا مواد جو جنسی، نسلی، مذہبی یا گروہی تعصب کو ہوا نہ دے بلکہ صرف تفریحی نوعیت کا ہو۔‘‘ 

ڈی ڈبلیو نے اسی موضوع پر پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے سابق سربراہ اورسینئر صحافی ابصار عالم کے ساتھ بھی تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا، ’’جس طرح کی پروڈکشن اب ہو رہی ہے، اس سے عوام کی ذہنی صحت کا متاثر ہونا لازمی سے بات ہے۔ پیمرا کے پاس ایسے بہت سے اعتراضات آتے بھی رہتے ہیں کہمعاشرے کے جو اصل مسائل ہیں، ان پر تو ڈرامے نہیں بن رہے۔ بس ہر ٹی وی چینل پر ایک ہی طرح کی تفریحی پروڈکشن ہو رہی ہے۔ اس طرح حقیقی معاشرتی مسائل اور موضوعات کہیں بہت نیچے جا چکے ہیں۔ زیادہ توجہ بالکل سطحی باتوں پر ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ٹی وی چینلز کو اس کا فائدہ یہ ہے کہ یوں ان کو ریٹنگ بھی مل جاتی ہے اور ایسی پروڈکشنز  پر لاگت بھی کم آتی ہے۔ اس لیے آپ کو ہر طرف مسلسل ایسا چربہ قسم کا مواد ہی تیار اور نشر ہوتا نظر آتا ہے۔" 

پاکستانی سینما گھر بھارتی فلموں کے بغیر ویران

اس بارے میں پیمرا ایک قومی اتھارٹی کے طور پر کیا کر سکتی ہے؟ اس سوال کا ابصار عالم کے پاس جواب بہت واضح تھا، "پیمرا ایسا کچھ نہیں کر سکتی کہ مواد کیا ہے، اسکرپٹ کیا ہے؟ کیا لکھا اور بنایا جا رہا ہے؟ ان سب پہلوؤں پر پیمرا کا کوئی کنٹرول نہیں۔ اس اتھارٹی کا کام کسی سینسر بورڈ کا بھی نہیں۔ نہ ہی یہ ادارہ کسی ٹی وی چینل کا پروڈکشن سے متعلق داخلی طریقہ تبدیل کرا سکتا ہے۔ پیمرا کا کام تو اس وقت شروع ہوتا ہے، جب کوئی پروڈکشن نشر ہو چکی ہو۔ آن ایئر ہوتے ہوئے اگر کوئی پروگرام پیمرا کے طے کردہ قانونی تقاضوں کے منافی ہو، تو یہ اتھارٹی ایکشن لے سکتی ہے اور آج تک اس نے ایسا کئی مرتبہ کیا ہے۔‘‘