ٹوری ڈی فرانس ہیروازم اور اسکینڈلزم کا امتزاج
22 جولائی 2013اپنی نوعیت کی اس 100ویں ریس کا نتیجہ ہر اعتبار سے بہت شاندار رہا ہے۔ ریس کے دوران سائیکلسٹ کو خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملے یعنی ریس ٹریک کا بہت سوچ سمجھ کر انتخاب کیا گیا۔ اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک عظیم مقابلے کے لیے شاندار انتظام کیا گیا۔ ریس شروع ہونے سے قبل ڈوپنگ کی وجہ سے انتظامیہ کافی پریشان بھی تھی کیونکہ ماضی میں اس طرح کے واقعات سامنے آنے کی وجہ سےاس مقابلے کی ساکھ بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔
اس کے علاوہ ٹور ڈی فرانس کے حوالے سے کرائے جانے والے ایک جائزے نے بھی انتظامیہ کی راتوں کی نیند حرام کردی تھی۔ اس جائزے میں شریک 40 فیصد فرانسیسی باشندوں نے کہا تھا کہ اگر ٹوری ڈی فرانس کو مکمل طور پر بند بھی کر دیا جائے تو انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تاہم ریس کے دوران کے مناظر دیکھ کر اس طرح کے تمام خدشات کی نفی ہو گئی۔ شائقین کی ایک بڑی تعداد ریس کے ٹریک کے اطراف کھڑی دکھائی دی۔ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ 12 ملین افراد نے ٹور ڈی فرانس کے 21 مرحلوں میں شرکت کی۔ تاہم اس اعداد و شمار کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔
یوں تو ٹور ڈی فرانس کی ابتدا 1903ء میں ہوئی تھی تاہم دونوں عالمی جنگوں کی وجہ سے کچھ سالوں تک یہ ریس منقعد نہیں ہو سکی تھی۔ ٹور دی فرانس میں اسکینڈلز کی کہانی بہت پرانی ہے۔ 1904ء کی ریس کے فاتح مورس گارن نے ریس کا ایک مرحلہ ٹرین میں بیٹھ کر طے کیا تھا۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ٹوری ڈی فرانس ہیروازم اور اسکینڈلزم کا امتزاج ہے۔
صد سالہ ٹور ڈی فرانس مقابلے میں سائیکل سواروں کو 21 مرحلوں کے دوران 3404 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا تھا۔ اس مقابلے میں بائیس ٹیموں کے196 کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔