ٹرمپ کی نئی قومی سکیورٹی پالیسی، چین اور روس کا ردعمل
19 دسمبر 2017خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روس پر یہ تنقید دراصل نئی امریکی سکیورٹی پالیسی کی راہ متعین کر رہی ہے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 'سب سے پہلے امریکا‘ کے تصور پر مبنی ہے۔ یہ تنقید امریکی سفارت کاروں کی طرف سے بارہا دوہرائے جانے والے اس نقطہ نظر کی بھی عکاسی کرتی ہے جس کے مطابق روس داخلی اور بیرونی سطح پر امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے جاری کی جانے والی دستاویز کے مطابق، ’’جدید تخریبی تدابیر کے ذریعے روس دنیا بھر کے ممالک کے داخلی سیاسی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔‘‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ماضی قریب میں متعدد مرتبہ اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے خواہاں ہیں۔ ان کی طرف سے اس خواہش کا اظہار شام اور یوکرائن میں روس کی پالیسی اور شمالی کوریا کے حوالے سے جاری بحران سے نمٹنے میں ماسکو کی طرف سے کوئی تعاون نہ کرنے کے باوجود کیا جاتا رہا ہے۔
پیر 18 دسمبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے لیے ایک نئی قومی سکیورٹی اسٹریٹیجی کا اعلان کیا۔ اس نئی پالیسی میں بھی ’پہلے امریکا‘ کی سوچ اپنائی گئی ہے۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں بھی گزشتہ برس مختلف شعبوں میں بار بار ’پہلے امریکا‘ ہی کا ذکر کیا تھا۔ اس پالیسی کے مرکزی نکات میں ملکی سرحدوں کی حفاظت، مسلح افواج کو مزید مضبوط بنانا اور ایسے تجارتی معاہدے کرنا شامل ہیں، جو خاص طور پر امریکا کے لیے فائدے مند ہوں۔ نئی اسٹریٹیجی میں پہلی مرتبہ اقتصادی سلامتی کے پہلو کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
اس پالیسی میں روس پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ وہ تخریبی سرگرمیوں کے ذریعے امریکی اور یورپی حکومتوں کی ساکھ کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس نئی حکمت عملی میں روس اور چین کو مشترکہ طور پر ایسے حریف قرار دیا گیا ہے جو امریکا کی سلامتی اور آسودہ حالی کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی قومی سلامتی کی اس نئی حکمت عملی کو روسی حکومت نے ’سامراجیت‘ قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی کریملن نے امریکی حکومت کی جانب سے روس کے ساتھ مشترکہ مفادات کے حوالے سے مل کر کام کرنے کی خواہش کو سراہا بھی ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ترجمان دیمیتری پیشکوف نے آج منگل 19 دسمبر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو نئی امریکی پالیسی میں روس کا ذکر کیے جانے کو ’سامراجیت‘ سمجھتا ہے، جو دراصل امریکا کی طرف سے ایک ’کثیرالقطبی دنیا سے انحراف‘ کا اظہار ہے۔
دوسری طرف چین کی طرف سے کہا گیا ہے کہ چین اور امریکا کے درمیان تعاون فریقین کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا جبکہ مقابلہ بازی یا تصادم دونوں کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ امریکا میں قائم چینی سفارت خانے کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ’’باہمی احترام کی بنیاد پر، چین امریکا سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ پر امن طور پر رہنے کو تیار ہے۔ تاہم امریکا کو چاہیے کہ چین کی ترقی کو تسلیم اور اسے قبول کرے۔‘‘