1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يونانی جزائر ايک بار پھر سياحوں کے منتظر

عاصم سليم28 مارچ 2016

اپنی تاریخ اور دلکشی کے باعث سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہنے والے یونانی جزائر مہاجرین کے بحران سے بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ لیکن ترکی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ صورت حال بدل جائے گی۔

https://p.dw.com/p/1IKvO
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Knosowski

کوس، ليسبوس، شيوس اور ساموس جيسے کئی يونانی جزائر پر ہوٹلوں ميں رہنے والے ايک ہی جملے ميں ’مہاجرين‘ اور ’سياح‘ کے الفاظ نہيں سنا چاہتے۔ ليکن حقيقت يہی ہے کہ ہر ممکنہ سياح يہ سن چکا ہو گا کہ دلکش مناظر اور تاريخ کے حوالے سے مشہور يہ مقامات آج کل تارکين وطن کے ليے يورپ ميں داخلے کی پہلی سيڑھی کے طور پر زير استعمال ہيں۔

ايک سال سے زائد عرصے سے يہ سلسلہ جاری ہے، ساحلوں پر شام، عراق، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے پناہ گزين خطرناک سمندری راستے طے کر کے بری حالتوں ميں پڑے نظر آتے ہيں جبکہ قريب ہی ريستورانوں ميں امير يورپی ملکوں کے سياح لطف اندوز ہوتے دکھائی ديتے ہيں۔

اب ايسا معلوم ہوتا ہے ترکی اور يورپی يونين کے مابين اس ماہ طے پانے والی ڈيل ان جزائر کے حکام کے ليے مبثت پيش رفت ثابت ہو گی۔ بحيرہ ايجيئن کے ذريعے يورپ تک رسائی اب کافی دشوار اور غير موزوں ثابت ہو رہی ہے۔ يہی وجہ ہے کہ ‌جرمن دارالحکومت برلن ميں سياحت کے حوالے سے ہونے والی ايک حاليہ نمائش ميں متعدد يونانی جزائر صارفين کو حيران کن حد تک کم قيمتوں پر سياحت کے پيکيجز فروخت کرتے نظر آئے۔

در اصل يونان کو سياحت سے حاصل ہونے والی آمدنی درکار ہے کيونکہ اس ملک کی پريشان حال معيشت کے ايک چوتھائی حصے کا دارومدار سياحت پر ہی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ صورت حال ميں گزشتہ سال کے اسی دورانیے کی نسبت  معمولی بہتری آئی ہے۔ دوسری جانب سينٹورينی کا جزيرہ ہے جو بحيرہ ايجيئن سے کافی دور ہے۔ یونانی جزیروں کی صورت حال خراب ہونے کے بعد یہ جزیرہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

اگر ليسبوس جزيرے کا جائزہ ليا جائے، تو پچھلے سال کے مقابلے ميں اس کی صورت حال کافی بہتر ہے۔ وہاں پہنچنے والے پناہ گزينوں کی تعداد ميں واضح کمی رونما ہو چکی ہے اور حکام نے متاثرہ مقامات کی صفائی ستھرائی کا کام بھی مکمل کر ليا ہے۔