1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يورپی اسکيم کے تحت پناہ گزينوں کی اٹلی سے قبرص منتقلی

عاصم سليم18 مئی 2016

پناہ گزينوں کے بحران سے نمٹنے کے ليے مہاجرين کی منصفانہ بنيادوں پر تقسيم اور یونین کے رکن ممالک ميں قانونی منتقلی کے حوالے سے يورپی يونين کی طے شدہ اسکيم کے تحت چار افريقی پناہ گزينوں کو اٹلی سے قبرص منتقل کر ديا گيا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ipf5
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images

وسطی افريقہ سے تعلق رکھنے والا ايک اور اريٹريا سے تعلق رکھنے والے تين تارکين وطن منگل سترہ مئی کی شام يورپی يونين کی رکن رياست قبرص کے شہر لارناکا کے ہوائی اڈے پر پہنچے۔ ان چاروں پناہ گزينوں کو آمد کے فوری بعد قريبی ساحلی شہر کوفينو کے ايک مہاجر کيمپ ميں منتقل کر ديا گيا۔

مشرق وسطیٰ، افريقہ اور ايشيا کے کئی ممالک سے سياسی پناہ کے ليے يورپ کا رُخ کرنے والے مہاجرين کی ذمہ داری بانٹنے اور اُن کا بوجھ تمام رياستوں ميں تقسيم کرنے کے ليے اٹھائيس رکنی يورپی بلاک کے رکن ملکوں نے ستمبر سن 2015 ميں ايک معاہدے پر اتفاق کيا تھا۔ معاہدے کے تحت قبرص نے مہاجرين کے بحران سے سب سے زيادہ متاثرہ رياستوں يونان اور اٹلی سے 440 مہاجرين کو اپنے ہاں پناہ دينے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ قبرص نے اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين (UNHCR) کی جانب سے چنے جانے والے ايسے 69 پناہ گزينوں کو، جنہيں خطرات لاحق ہوں، يورپی يونين سے باہر کے ملکوں ميں بھی پناہ دينے کا کہا ہے۔

قبرص نے مہاجرين کے بحران سے سب سے زيادہ متاثرہ رياستوں يونان اور اٹلی سے 440 مہاجرين کو اپنے ہاں پناہ دينے کا وعدہ کیا تھا
قبرص نے مہاجرين کے بحران سے سب سے زيادہ متاثرہ رياستوں يونان اور اٹلی سے 440 مہاجرين کو اپنے ہاں پناہ دينے کا وعدہ کیا تھاتصویر: picture-alliance/AP/Petros Karadijas

سترہ مئی کو قبرص پہنچنے والا چار مہاجرين کا گروپ اٹلی سے وہاں پہنچنے والا پہلا گروپ تھا۔ قبل ازيں اسی سال فروری ميں اس اسکيم کے تحت شام، عراق، اور اريٹريا سے تعلق رکھنے والے چھ پناہ گزينوں پر مشتمل ايک گروپ بھی يونان سے قبرص پہنچا تھا۔

مہاجرين کی ذمہ داری بانٹنے کی اس يورپی اسکيم کے تحت اٹلی اور يونان سے ایک لاکھ 60 ہزار پناہ گزينوں کو ديگر يورپی ممالک منتقل کرنے پر اتفاق رائے ہوا تھا۔ اس اسکيم کو مہاجرين کے بحران پر قابو پانے کے حوالے سے ايک اہم قدم کے طور پر ديکھا جاتا ہے تاہم کئی رکن رياستوں ميں پائے جانے والے تحفظات کی وجہ سے اس پر عملدرآمد کافی تاخير کے ساتھ لیکن جاری ہے۔