1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

090811 Ostafrika WFP

10 اگست 2011

مشرقی افريقہ کے قحط زدہ ممالک کے ليے اقوام متحدہ کے عالمی خوراک پروگرام نے يہ طريقہء کار منتخب کيا ہے کہ غذائی اشياء متاثرہ ممالک ميں درآمد کرنے کے بجائے خود وہاں کی مقامی منڈيوں سے خريدی جائيں۔

https://p.dw.com/p/12Dpz
مشرقی افريقہ کے قحط کے متاثرين کينيا کے داداب کيمپ ميں
مشرقی افريقہ کے قحط کے متاثرين کينيا کے داداب کيمپ ميںتصویر: dapd

يوگنڈا کے زيادہ ترکسان اب بھی زمين جوتنے کے ليے بيل استعمال کرتے ہيں۔ ايسا ہی ايک کسان مشرقی يوگنڈا کا جيکسن چيپ کوووری بھی ہے۔ مشرقی يوگنڈا بہت زرخيز علاقہ ہے اور يہاں بہت کچھ اگتا ہے۔ جيکسن کو اميد ہے کہ اس مرتبہ مکئی کی فصل بہت اچھی ہوگی: ’’ميرے خيال ميں ميری فصل کوئی 15 تھيلوں کی ہوگی جن ميں سے ہر تھيلا 100 کلو گرام کا ہوگا۔ يہ پچھلے سالوں کے مقابلے ميں کہيں زيادہ پيداوار ہوگی۔‘‘

اس کے ليے جيکسن عالمی خوراک پروگرام WFP کا مشکور ہے جو پچھلے چند برسوں سے ضروری غذائی اشيا صنعتی ممالک سے خريد کر متاثرہ ملکوں ميں بھيجنے کے بجائے خود ان ہی ملکوں کے کسانوں سے يہ اشياء خريد رہا ہے۔ اس طرح مشرقی افريقہ ميں بھی زراعت کو فائدہ ہو رہا ہے۔ يہاں کے کسان ديواليہ ہو سکتے تھے کيونکہ وہ باہر سے آنے والی اجناس کی قيمتوں کا مقابلہ نہيں کر سکتے تھے۔ اس طرح ورلڈ فوڈ پروگرام کا يہ طريقہء کار بالکل صحيح تھا ليکن اس کے باوجود اب اس تنظيم کو قرن افريقہ کے قحط اور خشک سالی کے شکار ممالک ميں مسائل کا سامنا ہے۔ کينيا جيسے ممالک ميں غذائی اشياء مثلاً مکئی کی قيمت ميں تين گنا اضافہ ہو گيا ہے۔ اس وجہ سے وہاں مظاہرے بھی ہو رہے ہيں۔

افريقہ ميں قحط: صومالی عورتيں داداب کيمپ ميں
افريقہ ميں قحط: صومالی عورتيں داداب کيمپ ميںتصویر: picture alliance/dpa

عالمی خوراک پروگرام کے رالف زيود ہوف نے کہا کہ تنظيم کو قرن افريقہ ميں 11 ملين سے زيادہ بھوکے افراد کی مدد کرنا ہے۔ اب تنظيم کو يہ الزامات سننا پڑ رہے ہيں کہ اُس نے خود بھی چيزوں کی قيمتوں ميں اضافہ کرايا ہے۔ اس ليے اب وہ مقامی منڈيوں ميں خريداری کا طريقہ ترک کر رہی ہے۔ اُس ادارے نے قرن افريقہ ميں، جہاں غذائی اشيا کی قيمتيں بہت بڑھ گئی ہيں، اس سال صرف زيادہ سے زيا دہ ايک لاکھ ٹن مکئی خريدی ہے جو کہ علاقے کے تمام ممالک کی مکئی کی پيداوار کے ايک فيصد سے بھی کم ہے۔ تنظيم کو اميد ہے کہ اس طرح وہ مقامی بازاروں ميں قيمتوں ميں اضافے کا سبب نہيں بنے گی۔

رپورٹ: آنيے ڈيک ہانس، نيروبی/ شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں