1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

واخی، جنگ کی حقیقتوں سے بے خبر قبائیلی

عنبرین فاطمہ/ نیوز ایجنسیاں
9 فروری 2018

مشرقی افغانستان میں سلسلہ کوہ پامیر کی جانب واخان اس قدر دور افتادہ  علاقہ ہے کہ  یہاں بسنے والے واخی قبیلے کے افراد اس خطے میں کئی دہائیوں سے جاری تنازعات سے بلکل بے خبر ہیں۔

https://p.dw.com/p/2sQEG
Afghanistan Wakhan Nomaden Familie
تصویر: Getty Images/G.Abbas

عمر رسیدہ سلطان بیگم کا تعلق واخی قبیلے سے ہے جو عرصہ دراز سے افغانستان کے اس بلند اور مشکل ترین پہاڑی علاقے میں بسا ہوا ہے جسے ’بام دنیا‘ یا ’دنیا کی چھت‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی دشوار گزار درہ ہے جس کے تنگ اور پُر خطر راستوں سے گزر کر اس علاقے میں پہنچنا ممکن ہو پاتا ہے۔ یہاں کا بیرونی دنیا سے شازونادر ہی رابطہ ہوتا ہےاور  یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں کے باسی افغانستان میں طویل عرصے سے مسلسل جاری جنگوں سے ناواقف ہیں۔

سلطانہ بیگم سے جب ان کے ملک میں ہونے والی جنگ کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے انتہائی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ، ’’ جنگ؟ کیسی جنگ؟ یہاں تو کوئی جنگ نہیں ہو رہی۔ ‘‘    

Afghanistan Frauen bereiten Essen vor
تصویر: Getty Images/G.Abbas

یہاں بسنے والے لوگ پُرانے قصے، حکایتیں اور روایات تو جانتے ہیں لیکن انہیں نہ ہی سویت حملے کی کوئی خبر ہے، نہ ہی امریکی پشت پناہی میں حملہ آور ہونے والوں سے لڑنے والے مجاہدین کی خبر ہے اور نہ ہی وہ جانتے ہیں کہ ان کے ملک میں نو سال سے جاری جنگ میں دس لاکھ سے زائد شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ہزاروں دربدر ہیں۔  ان کے سامنے طالبان کی بات کی جائے تو انہیں یوں لگتا ہے جیسے کوئی کہانی سنائی جا رہی ہے۔ اس کی مثال سلطان بیگم کا وہ سوال ہے جو انہوں نے ایسی ہی ایک خبر سن کے کیا اور وہ سوال تھا، ’ طالبان ؟ یہ کیا ہے؟‘‘

قدیم شاہراہ ریشم، مال کے بدلے مال کا طریقہ آج بھی رائج

افغانستان میں امریکی جنگی اخراجات پر پاکستانی ماہرین کی تنقید

لیکن پاکستانی تاجروں سے مال کے بدلے مال کی تجارت کرنے والے نوجوان تھوڑا بہت حالات سے باخبر رہنے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ مثلا سلطان بیگم کے اس سوال کے جواب میں ان کے سب سے بڑے بیٹے انہیں بتاتے ہیں کہ طالبان کسی دوسرے ملک سے تعلق رکھنے والے بہت برے انسان ہیں جو دوسرے انسانوں کو قتل کرتے ہیں۔لیکن اگر انہیں کوئی بتاتا ہے کہ ان کے ملک پر غیر ملکیوں نے چڑھائی کی ہے تو وہ اس کو نہایت بے یقینی سے سنتے ہیں۔ 

   

Afghanistan Wakhan Distrikt Provinz Badakhshan
تصویر: CC-BY-Benpaarmann

 19 ویں صدی میں اس علاقے کو روس اور بھارتی برطانوی حکومت کے مابین ایک غیر جانبدار علاقہ قرار دیا گیا تھا جس کے بعد سے اس دشوار گزار علاقے میں کسی حکومت نے دخل اندازی نہیں کی۔واخی در اصل کرغستان سے تعلق رکھنے والا  بمشکل بارہ سو افراد پر مشتمل قبیلہ ہے جو واخان کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے۔ یہاں رہنے والے افراد اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اسماعیلیوں کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان کے پیرو کاری ہیں۔ ان کی زندگی جرم اور تشدد کے  بغیر صرف اپنے مویشیوں اور  یاک کے گرد گھومتی ہے جبکہ لباس اور خوراک کے لیے یہ بارٹر لین دین کرنے والے افغانستان اور پاکستان سے آئے تاجروں پر انحصار کرتے ہیں۔   

افغان حکام کے مطابق کابل حکومت اس علاقے میں چین کے ساتھ ایک  ملٹری بیس بنانے کے لیے مزاکرات کر رہی ہے۔ اگر یہ مزاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو بلاشبہ واخی قبیلے کے افراد اس حصار سے باہر نکل آئیں گے جس نے ان کو اب تک جنگ کی خوفناک حقیقتوں سے دور رکھا ہوا ہے۔