1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال میں دو ملین بچے شہریت کھو سکتے ہیں

24 اگست 2011

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ نیپال کی حکومت نے ملک کے نئے آئین میں شہریت کے لیے سخت معیار کی منظوری دے دی تو وہاں تقریبا دو ملین بچوں کو شہریت کھو جانے کا خطرہ درپیش ہے۔

https://p.dw.com/p/12Mur
تصویر: Rebecca Henschke

نیپال میں تقریبا  ایک دہائی تک ماؤنواز باغیوں کا تنازعہ چلتا رہا، جس کے دوران تیرہ ہزار لوگ مارے گئے۔

اس خانہ جنگی کی وجہ سے نیپال کی معیشت پر بھی بہت برا اثر پڑا۔ 2006ء کے امن معاہدے کے بعد بادشاہت کا خاتمہ کیا گیا اور ایک خصوصی اسمبلی کو نئے آئین کی تشکیل کا کام دیا گیا۔

اقوام متحدہ کے کچھ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ آئین کے نئے مسودے میں کچھ ایسی شرائط شامل ہیں،

جن کے تحت نیپال میں صرف ان بچوں کو شہریت دی جائے گی، جن کے والدین، یعنی  ماں اور باپ  دونوں ہی نیپالی شہریت رکھتے ہوں۔

اس طرح کا ممکنہ  قانون نیپال کے ہزاروں بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی نشاندہی کرتا ہے۔

کٹھمنڈو  میں اقوام متحدہ کے ایک سینئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ نسل کے اعتبار سے شہریت دینے کی بات ہو تو یہ قوانین بہت سخت ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایسی شادیوں کے تناظر میں تقریبا  دو ملین بچوں سے نیپالی  شہریت چھِن جانے کا خطرہ ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ سلسلہ یہیں رک نہیں جائے گا بلکہ نسل در نسل چلتا رہے گا۔ نیپال نے اس قانون کی منظوری دے دی تو بھوٹان کے بعد ایسی قانون سازی کرنے والا یہ دوسرا ملک بن جائے گا۔

نیپال کے کسی شہری کا غیرملکی شوہر یاغیر ملکی بیوی وہاں کی شہریت لینا چاہے تو اس کے لیے وہاں پندرہ سال  تک کی قانونی رہائش شرط ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ ایسی قانون سازی سے متاثر ہونے والے بچوں کو کالج کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے، پاس پورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس کے حصول، زمین کی ملکیت، پنشن، ووٹ ڈالنے یا انتخابات میں حصہ لینے کے حقوق حاصل نہیں ہوں گے، جبکہ انہیں ملازمتوں کے حصول میں بھی مشکل ہو گی۔

رپورٹ: سائرہ ذوالفقار 

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں