1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیو نازی مقدمہ: بیوروکریسی پر تنقید

17 اپریل 2013

جرمنی میں غیر ملکیوں سے نفرت کرنے والے نیو نازی عناصر کے ہاتھوں آٹھ ترکوں، ایک یونانی اور ایک پولیس اہلکار کے قتل کا مقدمہ بدھ سترہ اپریل سے شروع ہونا تھا تاہم اب اس کی سماعت چھ مئی تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/18Het
تصویر: picture-alliance/dpa

38 سالہ ملزمہ بیاٹے شَیپے اور اُس کے چار ساتھی ملزمان کے خلاف اس مقدمے کی سماعت کے لیے میونخ کی اعلیٰ صوبائی عدالت کے جس ہال کو منتخب کیا گیا ہے، وہ میونخ کا سب سے بڑا عدالتی ہال ہے اور اُس میں اب تک متعدد بڑے بڑے مقدموں کی سماعت ہو چکی ہے۔ تازہ مقدمے کے لیے A 101 نامی اس ہال کی تجدید و مرمت کی گئی ہے اور یہاں نئی میزیں اور نئے مائیکرو فون لگائے گئے ہیں۔ اس سارے کام پر تقریباً 1.2 ملین یورو خرچ ہوئے ہیں۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ یہ ہال اس تازہ مقدمے کے لیے بہت ہی چھوٹا پڑ گیا ہے۔ صحافیوں اور تماشائیوں کے لیے محض 101 نشستوں کی گنجائش موجود ہے۔

میونخ کورٹ ہاؤس کی پریس ترجمان مارگریٹے نوئٹسل مقدمے کی سماعت کی نئی تاریخ چھ مئی کا اعلان کر رہی ہیں
میونخ کورٹ ہاؤس کی پریس ترجمان مارگریٹے نوئٹسل مقدمے کی سماعت کی نئی تاریخ چھ مئی کا اعلان کر رہی ہیںتصویر: Reuters

صحافیوں کے لیے مخصوص پچاس نشستوں کی تقسیم ’پہلے آئیں، پہلے پائیں‘ کے کلیے کی بنیاد پر کی گئی، حالانکہ یہ واضح تھا کہ اس طریقے سے غیر ملکی صحافیوں کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ جب یہ پتہ چلا کہ ترک رپورٹروں کو یا اُن کے بی بی سی اور ’نیویارک ٹائمز‘ سے وابستہ صحافی ساتھیوں کو محض ایک ویٹنگ لسٹ پر ڈال دیا گیا ہے تو ترک اخبار ’حریت‘ سے وابستہ جلال اوئیجان جیسے رپورٹروں نے ’سخت مایوسی اور غم و غصے کا اظہار‘ کیا۔ یہ مایوسی قابل فہم تھی کیونکہ ان نیونازی عناصر کے ہاتھوں قتل ہونے والے آٹھ شہریوں کا تعلق بنیادی طور پر ترکی سے تھا جبکہ ایک کا یونان سے تھا۔ تاہم اس مقدمے کے حوالے سے ترکی میں خصوصی دلچسپی پائی جاتی ہے۔

راجر بوائز ماضی میں برطانوی اخبار ’ٹائمز‘ کے نامہ نگار رہ چکے ہیں اور جرمنی کے کئی بڑے مقدمات کی کارروائی دیکھ چکے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’اس بڑے مقدمے کے دوران جرمن بیوروکریسی کی مکمل تنگ نظری دیکھی جا سکتی ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا: ’’عدالتی کارروائی کا سارا انتظام دفتر استغاثہ کے چھوٹے سے پریس سینٹر کے ذمے لگا دیا گیا ہے، جن کے عام طور پر محض مقامی صحافی حلقوں کے ساتھ ہی روابط ہوتے ہیں اور جو کسی بڑے اخبار کے رپورٹر کے آنے پر جوش کے باعث اپنی نشست سے گرتے گرتے بچتے ہیں۔‘‘

جج کارل ہُوبر، جو آخری وقت تک اپنے ابتدائی فیصلے کو درست قرار دیتے رہے
جج کارل ہُوبر، جو آخری وقت تک اپنے ابتدائی فیصلے کو درست قرار دیتے رہےتصویر: Reuters

لندن کے اخبار ’گارجین‘ کے لیے لکھنے والے جرمن برطانوی صحافی فلیپ اولٹرمان نے کہا: ’’میرے خیال میں اس سے جرمنی کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ تاثر یہ ابھرتا ہے کہ جج بہت زیادہ چڑچڑے ہیں اور دفتر شاہی مزاج کے مالک ہیں اور وہ بھی ایک خاص طرح کے فخر کے ساتھ۔ تاہم ایسا کرتے ہوئے وہ اس مقدمے کی علامتی نوعیت کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔‘‘

بالآخر وفاقی جرمن آئینی عدالت نے صورت حال میں پائے جانے والے تعطل کو دور کیا اور بارہ اپریل کو یہ فیصلہ دیا کہ عدالت میں مقتولین کے ساتھ خصوصی تعلق رکھنے والے ملکوں کے ذرائع ابلاغ کو کم از کم تین نشستیں دی جائیں۔ اس فیصلے کے سامنے آنے تک میونخ کی عدالت کے سربراہ کارل ہُوبر کمرہء عدالت میں نشستوں کی تقسیم کو جائز قرار دیتے ہوئے اُس کا دفاع کر رہے تھے۔ اب نشستوں کی تقسیم پر پیدا ہونے والے تنازعے کے باعث عدالت نے مقدمے کی سماعت چھ مئی تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔

B.Knight/aa/mm