1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیندرتھال انسانوں کے اجداد ہیں!

8 مئی 2010

جرمن سائنسدانوں کی ایک اہم تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ انسانوں سے قربت رکھنے والی ایک قدیم نسل ’نیندرتھال‘ آج کے جدید انسانوں کے جینز میں زندہ ہے۔

https://p.dw.com/p/NJ7U
انسانوں سے مشابہت رکھنے والی قدیم نسل نیندرتھالتصویر: picture alliance / dpa

اس سے قبل سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ قدیم نسل آج سے کوئی تیس ہزار سال پہلے نابود ہو گئی تھی۔ جرمن سائنسدانوں نے قدیم انسانی نسل Neanderthals کے ڈی این اے پر تحقیق کے بعد کہا ہے کہ یہ نظریہ غلط ہے کہ یہ نسل آج کل کے جدید انسانوں میں منتقل نہیں ہوئی ہے۔

بون یونیورسٹی کے سائنسدان رالف شمٹز نے بھی اس تحقیق میں حصہ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب یہ پتہ چلا لیا گیا ہے کہ ’نیندرتھال‘ انسان کی ہی ایک قدیم نسل تھی۔ انہوں نے کہا:’’ یہ تحقیق قدیم جینز کی دریافت کے علاوہ بشریات اورآثار قدیمہ کے شعبے میں ایک اہم پیش رفت ہے۔یہ تحقیق مکمل طور پر ایک سنگ میل کی حیثت رکھتی ہے۔‘‘

Neandertaler
یہ نسل تیس ہزار سال قبل نابود ہو گئی تھیتصویر: picture-alliance/dpa

جرمن سائنسدانوں نے جمعہ کے دن ایک امریکی سائنسی جریدے میں اس تحقیق کے اہم نکات شائع کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’نیندر تھال‘ نسل کے جینز ابھی بھی یورپ ، چین اور نیو گئنی میں رہنے والے ایک تا چار فیصد انسانوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس سے قبل کی جانے والی ایسی تمام تحقیقات میں ایسی کوئی نسبت تلاش نہ ہو سکی تھی۔

جرمن شہر لائپزش کے ماکس پلانک انسٹی ٹیوٹ میں سائسدانوں نے ’نیندرتھال‘ نسل کے جینز پرتحقیق کی۔

In Kleinwelka bei Bautzen im Saurierpark von Franz Gruß entsteht ein neues Bild der Evolutionsgeschichte.
یاس نسل کے نابود ہونے کی وجوہات معلوم نہیں ہو سکیں ہیںتصویر: picture alliance / ZB

اس تحقیق کے سربراہ سائنسدان سوانتے پابو نے کہا ہے کہ ڈی این اے تحقیق کا بنیادی نکتہ بیکٹریا اور مائیکرو اورگینزم سے متعلق تھا کیونکہ اس سے قبل ’نیندر تھال‘ نامی قدیم انسانی نسل پر جتنے بھی ڈی این اے ٹیسٹ کئے گئے وہ mitochondrial تھے، اور ان سے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا کہ ’نیندر تھال‘ کے جینز آج کل کی نسل میں بھی پائے جاتے ہیں۔

شمٹز نے مزید کہا کہ اس تحقیق سے یہ دلچسپ امر بھی سامنے آیا ہے کہ چین میں بھی ایسے انسان بستے ہیں جن میں ’نیندر تھال‘ نسل کے جینز پائے جاتے ہیں جبکہ ایسے شواہد نہیں ملے ہیں کہ یہ نسل کبھی چین میں رہی ہو۔

اب تک اس قدیم نسل کی باقیات یورپ اور ایشیا کے مختلف تین سو علاقوں سے ملیں ہیں۔ پہلی مرتبہ سن 1856ء میں مغربی جرمن شہر ڈسلڈوف کے نواح میں واقع ایک ’نیندر تھال‘ نامی وادی میں کھدائی کے دوران اس نسل کی ہڈیاں ملیں تھیں۔ اس لئے اس نسل کا نام ’نیندر تھال‘ ہی رکھ دیا گیا۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: شادی خان سیف