نیدرلینڈز کے ٹیولپس خطرے میں
ٹیولپس نیدرلینڈز میں ایک قومی خزانہ ہیں۔ یہ چھوٹا سا یورپی ملک دنیا میں گل لالہ کے پھولوں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ لیکن موسمیاتی تبدیلی اور بریگزٹ نے اس کاروبار کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
پھولوں کا سمندر
نیدرلینڈز میں بہار سب سے زیادہ رنگین موسم ہے، یہ وہ وقت ہے، جب یہ پورپی ملک پھولوں کے سمندر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ شمالی سمندر کے ساحل پر واقع یہ چھوٹا سا ملک دنیا میں ٹیولپ برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، یہاں سے ہر سال تقریباً 2.5 ملین ٹیولپ بیرون ملک فروخت کیے جاتے ہیں۔
سیاحوں کے لیے مقناطیسی کشش
یہ پھول سیاحوں کی توجہ کا بھی ایک بڑا مرکز ہیں۔ لوگ دنیا بھر سے ان رنگ برنگے پھولوں کی ستائش اور تصویر کشی کرنے آتے ہیں، جیسا کہ یہاں لیزے کے مشہور کیوکن ہوف گارڈنز میں ہے۔ اپنے قدرے طویل اور ٹھنڈے موسم بہار کے ساتھ ڈچ آب وہوا ان پھولوں کی نشوونما کے لیے بہترین ہے۔ لیکن اب موسمیاتی تبدیلیاں ٹیولپ کے کاشتکاروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
آب و ہوا بدل گئی ہے
اپنے کھیتوں میں ٹیولپس کا معائنہ کرتے ہوئے نظر آرہے ارجان اسمت بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے ان اثرات کو محسوس کر رہے ہیں۔ اسمت نے بتایا، ’’آب و ہوا بدل گئی ہے۔ ہم اسے محسوس کر سکتے ہیں۔ بارشوں کے موسم کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔‘‘ 55 سالہ سمت کو پہلے بھی بہت سی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن آب و ہوا کی تبدیلی پھولوں کے اس خاندانی کاروبار کو برقرار رکھنا مشکل بنا رہی ہے۔
خطرے سے دوچار حسین مناظر
قدیم پن چکیاں اور گل لالہ کے کھلتے ہوئے کھیت، بہت سے لوگوں کے لیے یہ نیدرلینڈز کی شاندار خوبصورتی کی عکاسی کرتا ہے۔ لیکن یہ خوبصورت منظر خطرے میں ہےکیونکہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پانی کے زائد بخارات فضا میں داخل ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے بھیگا ہوا موسم سرما، جو موسم بہار اور گرمیوں میں گرمی کی تیز لہروں کے ساتھ ٹیولپس کی نشوونما کے لیے ایک مہلک امتزاج ہیں۔
پھولوں کی جگہ کیچڑ
ٹیولپس کے کاشتکار اسمت نے اے ایف پی کو بتایا، ’’پچھلے سال صرف بارش، بارش اور بارش ہوئی اور آپ نتیجہ دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ اس کی وجہ سے آٹھ سے نو فیصد کے درمیان ٹیولپس مر گئے اور بہت سے خطرے میں ہیں۔ موسم سرما بہت گیلا ہونے کی وجہ سے ٹیولپس کی جڑیں پانی کی تلاش میں زیادہ گہرائی تک نہیں بڑھ پائیں۔
خراب موسم اور بڑھتے ہوئے اخراجات
اسمت عام طور پرمختلف اقسام کے 11 ملین ٹیولپس اگاتے ہیں لیکن اس سال انہیں یہ خوف لاحق ہے کہ موسم کی وجہ سے ان کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔ انہیں بڑھتے ہوئے اخراجات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب سے قبل انہیں اپنے کھیتوں کو سیزن میں صرف دو سے چار بار پانی دینا پڑتا تھا، حالیہ برسوں میں کبھی کبھی ہر ہفتے پھولوں کو پانی دینا ضروری ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ٹیولپس اگانا مہنگا ہو جاتا ہے۔
ایک نیا چیلنج: بریگزٹ
ڈچ ٹیولپ کاشتکاروں کو اب ایک اور چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے اور یہ چیلنج ہے برطانیہ کے یوپری یونین سے انخلا یا بریگزٹ کے بعد سخت سرحدی کنٹرول۔ 30 اپریل 2024 کے بعد سے برطانیہ میں داخل ہونے والے پودوں کی جسمانی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ سمت کا اندازہ ہے کہ ان کی تقریباً اسی فیصد فصل بیرون ملک فروخت ہوتی ہے۔
مستقبل کا سامنا
اسمت نے کہا کہ سرحدی کنٹرول کی وجہ سے پھولوں کی ڈلیوری میں کوئی تاخیر ’’تباہ کن‘‘ ہو گی۔ لیکن انہیں امید ہے کہ وہ اس ڈچ قومی فصل کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کر یں گے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ مشکل ہے لیکن جب آپ مشکلات پر اچھے طریقے سے قابو پا لیں تو آپ پھولوں کی صنعت میں اچھا منافع حاصل کر سکتے ہیں۔"