نيٹو کا افغانستان سے انخلاء کتنا حقيقت پسندانہ ہے
22 نومبر 2010نيٹو نے يہ طے کيا ہے کہ افغانستان کی پوليس اور فوج کو تربيت دے کر اس قابل بنا ديا جائے گا کہ وہ سن 2014 کے آخر ميں ملک کی سلامتی اور حفاظت کی ذمے داری خود سنبھال سکے۔
يہ ايک مشکل کام ہے اور افغان پوليس اور فوج کم از کم اس وقت تو اسے سنبھالنے کے قطعی اہل نہيں ہيں۔ اس وقت نہ تو اُن کی تعداد مناسب حد تک زيادہ ہے، نہ وہ صحيح معنوں ميں تربيت يافتہ ہيں اور نہ ہی اُن کے پاس صحيح اسلحہ ہے۔اس کے علاوہ افغان فوجيوں اور پوليس کی وفاداری بھی مشکوک ہے۔ پوليس اور فوج کے بہت سے کارکن سابق مجاہدين کی صفوں سے آ کر ان اداروں ميں بھرتی ہوئے ہيں۔ وہ اب بھی وقتاً فوقتاً اپنے سابق رہنماؤں سے وفاداری کا دم بھرتے ہيں۔ افغان پوليس اور فوج کی يہ مخدوش حالت يہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ نيٹو،افغانستان کی اپنی قومی سکيورٹی فورسز کی تشکيل ميں اب تک ناکام رہا ہے۔ سلامتی کا ايک اور نازک پہلو يہ ہے کہ نوجوان فوجی اور پوليس اہلکار منشيات استعمال کرتے ہيں۔ اس کے علاوہ مبصرين يہ بھی اطلاع دے رہے ہيں کہ افغان سکيورٹی فورسز پر طالبان کے اثر ميں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس کے باوجود نيٹو کی قيادت نے لزبن ميں ہونے والی سربراہ کانفرنس ميں مستقبل کو پر اميد نظروں سے ديکھا ہے۔ يہ کہا گيا کہ مسائل ایسے ہیں، جنہیں حل کیا جا سکتا ہے۔ آنے والے برسوں میں افغان پوليس اور فوج کی تربيت کو ترجيح دی جائے گی۔ ايک نئی بات يہ کہی گئی ہے کہ سن 2014 ميں لڑاکا دستوں کے انخلاء کے بعد بھی افغانوں کو اُن کے حال پر نہيں چھوڑ ديا جائے گا بلکہ اس کے بعد بھی وہاں دوسرے ملکوں کے علاوہ جرمن فوجی بھی تعينات رکھے جائيں گے۔
افغان شہری نيٹو کے ان حاليہ فيصلوں کی وجہ نيٹو کے رکن ممالک کے داخلی حالات کو بھی قرار ديتے ہيں، جہاں افغانستان سے فوجی انخلاء کے عوامی مطالبے ميں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ليکن نيٹو کو يہ مسئلہ بھی درپيش ہے کہ تاريخ ميں يہ نہ آنے پائے کہ اب تک کا دنيا کا سب سے بڑا فوجی اتحاد افغانستان کی تعميرنو کے شاندار منصوبے ميں ناکام ہو گيا۔ افغانوں کو شبہ ہے کہ اُن کے جن کمزور اور کرپٹ حکام، فوج اور پوليس کوپچھلے نو سال ميں ملک سنبھالنے کے قابل نہیں بنايا جا سکا، وہ اگلے تين برسوں ميں یہ ذمے داریاں نبھانے کے قابل ہو جائيں گے۔
اس کے علاوہ خود نيٹو کو بھی يہ خدشہ ہے کہ افغانستان ميں اس کی ناکامی سے اسلام کے نام پر ہونے والی عالمی دہشت گردی دنيا بھر ميں اور زیادہ طاقتور ہو جائے گی۔
تبصرہ: رتبیل شامل (ڈوئچے ویلے، پشتو سروس)
ترجمہ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: امجد علی