1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نقیب کی ہلاکت: سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا

19 جنوری 2018

پاکستانی سپریم کورٹ نے نقیب اللہ محسود کی مبینہ ماروائے عدالت قتل پر ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نے آئی جی پی سندھ کو سات روز میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/2rAbi
Pakistan Naqeebullah wurde von Polizisten getötet
تصویر: Meraj Udin, Sanna Ijaz

نقیب کی ہلاکت کے خلاف کراچی سے خیبر تک سڑکوں پر احتجاج جاری ہے اور مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے شہری نقیب کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ سے سات روز کے اندر رپورٹ طلب کرلی ہے۔

نقیب کی ہلاکت کیا ماورائے عدالت ہے؟

پاکستان: زینب کا مبینہ قاتل گرفتار کر لیا گیا، پولیس

دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے باعث وزیرستان سے کراچی آنے والے نوجوان نقیب اللہ کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے خلاف سوشل میڈیا پر شروع ہونے والی مہم پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ پارلیمان میں بھی عوامی احتجاج کی گونج ہے اور سندھ حکومت کراچی آپریشن کے دوران پہلی مرتبہ مجبور ہوئی ہے کہ معالے کی اعلٰی سطح پر تحقیقات کرائی جائے۔

راؤ انوار کا موقف

راؤ انوار سندھ پولیس کے سب سے زیادہ با اثر مگر متنازعہ ترین افسر ہیں جو اپنے ساتھ مبینہ مقابلے کی سالوں پر محیط تاریخ رکھتے ہیں۔ راؤ انوار کراچی پولیس کے انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کے نام سے مشہور ہیں، ان کے مبینہ مقابلوں کی ابتداء 1995 میں ہوئی جب انہوں نے ایم کیو ایم کے کئی کارکنوں کو مقابلوں میں ہلاک کیا۔ راؤ انوار گذشتہ تقریباٰﹰ دس برس سے ایس ایس پی ملیر کے عہدے پر تعینات ہیں اور سن 2012 سے اب تک ان پر پانچ مبینہ حملے بھی ہوچکے ہیں مگر تمام حملوں میں بھی دہشت گرد ہی مارے گئے ہیں۔ انہیں تین مرتبہ عہدے سے ہٹایا گیا مگر اثر و رسوخ استعمال کرکے دوبارہ بحالی ہوگئی۔

سن 2013 میں شروع ہونےوالے آپریشن میں اب تک ڈیڑھ سو سے زائد مبینہ دہشت گردوں کو پولیس مقابلوں میں ہلاک کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے دو افراد کی ہلاکت کا معاملہ عدالت تک بھی گیا مگر تاحال کوئی نیتجہ نہیں نکل سکا۔

نقیب اللہ کی ہلاکت کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے راؤ انوار نے کہا کہ نقیب اللہ 'کالعدم تحریک طالبان کا دہشت گرد تھا جو نام تبدیل کرکے کراچی میں رہ رہا تھا‘۔ ان کے مطابق نقیب نہ صرف وزیرستان بلکہ کراچی میں بھی دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث تھا۔ انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ 'تحریک انصاف کے ایک مقامی رہنما کے خلاف مقدمات درج کرنے کی وجہ سے ان سے ذاتی پرخاش ہے اور تحریک انصاف نے ہی دہشت گرد کو معصوم بنانے کی کوشش کی ہے‘۔ راؤ کے بقول ان کے پاس نقیب کے خلاف تمام ثبوت ہیں، جو انہوں نے ایڈیشنل آئی جی کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں کام کرنے والی تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی کو بھی پیش کردیے ہیں۔

نقیب کا خاندان اور دوست کیا کہتے ہیں؟

نقیب جسکا اصل نام نسیم اللہ محسود تھا 2008 میں وزیرستان سے کراچی آیا تھا۔ کچھ عرصہ چچا کے پاس رہا اور اسٹیل ملز میں لوڈنگ کا کام کیا تاہم بعد میں سہراب گوٹھ منتقل ہوگیا۔

دو بیٹیوں اور دو سالہ بیٹے کا باپ نقیب زندگی سے بھرپور نوجوان تھا جس کی گواہی اسکا فیس بک پییج بھی دیتا ہے۔ دوست کہتے ہیں کہ نقیب کو ماڈلنگ کا بھی شوق تھا لیکن فی الحال وہ کاوربار کے لیے تگ و دو کررہا تھا۔ کاروبار کرنے کے لیے اس نے دبئی میں مقیم بھائی سے رقم بھی ادھار لی تھی۔، نقیب نے سوشل میڈیا پر اپنے بیٹے کو مستقبل میں فوجی افسر بنانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔

نقیب کے دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ دہشت گرد نہیں تھا جس کا ایک ثبوت پاک فوج کی جانب سے اسے جاری کیا گیا وطن کارڈ ہے جو مکمل چھان بین کے بعد آپریشن کے باعث گھر ہجرت کرنے والے افراد کو جاری کیا جاتاہے۔

’ایسا لگتا ہے کہ ان حملوں میں ریاستی ادارے ملوث ہیں‘

خودکش بم حملے میں مارے جانے والے اے آئی جی پولیس کی تدفین