1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نقلی کیمرے کے ساتھ اصلی خبریں بناتے تارکین وطن

شمشیر حیدر29 اپریل 2016

یونان کے ایڈومینی کیمپ میں مقیم چند تارکین وطن نے لکڑی کے ڈبے اور پلاسٹک کی بوتل کی مدد سے ایک نقلی کیمرہ بنایا اور پھر کیمپ کے حقیقی مسائل پر خبریں بنانا شروع کر دیں۔

https://p.dw.com/p/1IfSz
Screenshot Facebook/refugees.tv
تصویر: Facebook/refugees.tv

ایڈومینی کیمپ اس وقت خبروں کی زینت بننا شروع ہوا تھا جب مقدونیہ اور بلقان کی دیگر ریاستوں نے تارکین وطن کے لیے اپنی ملکی سرحدیں بند کر دی تھیں اور ہزاروں پناہ گزین اس یونانی کیمپ میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔

آسٹریا نے پناہ کے سخت ترین قوانین متعارف کرادیے

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘

باصل اور عبد الرحیم نامی دو شامی مہاجرین بھی اسی کیمپ میں مقیم ہیں اور نقلی کیمرے کے ذریعے مہاجرین کے انٹرویو اور رپورٹنگ کرتے ہوئے دراصل وہ ان صحافیوں پر طنز کر رہے تھے جو اس کیمپ میں رپورٹنگ کی غرض سے مسلسل آ رہے تھے لیکن مہاجرین کے مسائل جوں کے توں رہے۔

لیکن مذاق اور طنز کے طور پر شروع کیا گیا یہ عمل حقیقی صورت اختیار کر گیا جب انہیں احساس ہوا کہ وہ مہاجرین کے مسائل کے بارے میں رپورٹنگ کے اس خلا کو پُر کر سکتے ہیں جو اس کیمپ کے خبریں دینے والے اصلی صحافیوں نے خالی چھوڑ دیا تھا۔

’ریفیوجیز ٹی وی‘ کے ساتھ بحیثیت مترجم منسلک دمشق سے تعلق رکھنے والے مہاجر مصطفیٰ المحمود کے مطابق کیمپ میں مقیم دیگر پناہ گزینوں نے اس مزاح کو بے حد سراہا۔ مصطفیٰ کے بقول، ’’سب جانتے تھے کہ یہ ایک مذاق ہے لیکن جن مسائل پر وہ سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے وہ حقیقی تھے۔‘‘

مہاجرین کی مدد میں مصروف رضاکاروں نے جب اس امکان کو محسوس کیا کہ تارکین وطن اپنے مسائل سے متعلق خبریں خود ہی بنا سکتے ہیں تو انہوں نے کیمرہ اور لیپ ٹاپ خرید کر ’ریفیوجی ٹی وی‘ شروع کرنے میں مہاجرین کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔

باصل، عبدالرحیم اور مصطفیٰ نے مل کر اس ہفتے فیس بُک پر ’ریفیوجیز ٹی وی‘ کے نام سے ایک پیج بنایا اور ایڈومینی کیمپ کے بارے میں خبریں شائع کرنا شروع کر دیں۔ چھبیس اپریل بروز منگل شروع کیے گئے اس پیج کو آج انتیس اپریل تک ایک ہزار سے زائد لوگ پسند کر چکے ہیں۔

Griechenland Refugee.TV
ایڈومینی کیمپ میں مقیم مہاجر بچوں نے بھی نقلی کیمرے بنا کر رپورٹنگ کا مذاق اڑانا شروع کر رکھا ہےتصویر: Mark Langham

اصلی کیمرہ ملنے کے بعد بھی ریفیوجیز ٹی وی کی ٹیم نے اپنے نقلی کیمرے اور مائیکروفون کا استعمال ترک نہیں کیا۔ وہ انٹرویو کرتے ہوئے انہی کو بروئے کار لاتے ہیں لیکن فلم کیمرے سے بنائی جاتی ہے۔

ایڈومینی کیمپ میں منگل کے روز طوفانی ہواؤں نے درجنوں خیمے اکھاڑ پھینکے تھے اور سب سے پہلی رپورٹ طوفان کے بعد کی صورت حال پر ہی بنائی گئی تھی۔ ایک رپورٹ یونانی پولیس کی جانب سے کیمپ خالی کرنے کے بارے میں دیے گئے نوٹس کے بارے میں بھی ہے اور ایک بریکنگ نیوز یہ بھی تھی کہ کیمپ میں سے ایک سانپ ملا جسے ایک مہاجر نے مار دیا۔

مصطفیٰ کا کہنا ہے، ’’زیادہ تر میڈیا جب کیمپ کے بارے میں رپورٹنگ کرتا ہے تو صرف منفی خبریں ہی پیش کی جاتی ہیں، حقیقی صورت حال کی منظر کشی کوئی بھی نہیں کرتا۔‘‘

اقوام متحدہ کی جانب سے مہاجرین کی مدد میں ناکامی پر طنز کرتے ہوئے کیمپ میں اقوام متحدہ کا ایک جعلی دفتر بھی بنایا گیا ہے۔ دفتر میں نیلی جیکٹ پہن کر کچھ مہاجرین اقوام متحدہ کے اہلکار بن کر بیٹھے رہتے ہیں۔ دفتر کے باہر تحریر ہے، ’’اقوام متحدہ: نہ معلومات اور نہ ہی کوئی مدد۔‘‘

جرمنی نے 2016ء میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟

یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید