1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نفسیاتی بیماری ’آٹزم‘ کا عالمی دن

عرفان آفتاب Schlagwein, Felix
2 اپریل 2018

تارے زمین پر ہو یا پھر’مائے نیم ازخان‘ یہ فلمیں نفسیاتی مرض آٹزم یا ’’خود محوری‘‘ میں مبتلا افراد کی زندگی پر بنائی گئی ہیں۔ ’اوٹزم‘ کے عالمی دن کے موقع پر ہم نے ایسے نفسیاتی مسائل پرہونے والے تخلیقی کاموں کو یاد کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2vN1Z
Bollywood Film My Name Is Khan
تصویر: Twentieth Century Fox

ہر انسان دنیا کو مختلف زاویے سے دیکھتا ہے لیکن بعض افراد اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے زیادہ حساس اور ذہین ہوتے ہیں۔ ایسے افراد اپنے ارد گرد رونما ہونے والے چھوٹے چھوٹے واقعات کو بھی نہایت سنجیدگی سے محسوس کرتے ہیں۔ عام لوگوں کے مقابلے میں ایسے افراد کا ردِعمل بالکل مختلف ہوتا ہے۔ تاہم وہ کسی گفتگو یا کسی ایک مرکزی موضوع ارنکاز توجہ کی صلاحیت نہیں رکھتے، اور ان کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔  وہ دوسروں کے جذبات کا ادراک  بھی نہیں کر سکتے۔  یہ افراد حرفِ عام میں’آٹزم‘ یا ’’خود محوری‘‘ نامی نفسیاتی مرض کا شکار ہوتے ہیں۔

اعصابی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے لیے امید کی کرن

سن 1940 میں  آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بچوں کے ایک ڈاکٹر ہانس آسپیرگر  نے بعض نوجوان مریضوں کے غیر معمولی طرز عمل اور شخصیت کے پیچیدہ پہلوؤں کو محسوس کیا تھا۔ آسپیرگر نے دیکھا کہ یہ مریض عام انسانوں کے گروپ میں ضم ہونے کے قابل نہیں اور وہ دوسرے لوگوں کے جذبات کو مشکل سے سمجھ رہے تھے۔ آسپیرگر نے ایسے بچوں کا مشاہدہ کیا کہ ان بچوں کو دوست بنانے میں کیوں دشواری ہوتی ہے۔ تاہم عام طور پر اس مرض کی علامت کی نشاندہی کرنا مشکل ہوتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے ایسے افراد کو ’آٹسٹک ‘ کہا جاتا ہے۔ بعد ازاں عصبیات دان اور محققین نے یہ ثابت  کیا کہ  آٹسٹک بچے غیر معمولی طور پر ذہین ہوتے ہیں۔ یہ بچوں کی  اوسط ذہانت سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ 

نومولود بچوں میں Autism کا یرقان سے تعلق ظاہر

صحت مند بڑھاپے کا عمر سے زیادہ تعلق نہیں، نئی تحقیق

Kim Peek 2007
تصویر: cc-by-Dmadeo

اعصابی یا تفسیاتی نظام سے متعلق مرض کی تشریح کو عوام الناس تک آسان طریقے سے پہنچانے کے لیے ہالی ووڈ اور بالی ووڈ میں متعدد  فلمیں بنائی گئی ہیں۔ جیسے کہ غیر معمولی ذہانت کے حامل امریکی شخص کِم پیک کی زندگی پر مبنی  ہالی ووڈ کی فلم ’رین مین‘ ہے۔ کم پیک سن 2009 میں اپنی وفات سے قبل 12000 کتابیں حفظ کر چکے تھے، خواہ وہ کیلنڈر، ٹیلیفون ڈائری ہو یا پھر ٹی وی کے پروگرامز۔ کِم پیک کو تمام باتیں حرف بہ حرف ایسے ذہن نشین تھیں جیسے کسی ہارڈ ڈسک پر محفوظ کیا گیا ’ڈیٹا‘۔ تاہم کِم پیک نہ تو خود اپنے کپڑے تبدیل کرسکتے تھے اور نہ ہی اکیلے لائبریری جا سکتے تھے۔

Filmstill - Rain Man
تصویر: picture-alliance/United Archives

ہالی ووڈ کی فلم ’رین مین‘ کے بعد بالی ووڈ میں بھی ’آٹزم‘ بیماریوں پر فلمیں بنائی گئیں۔ جن میں سپر سٹار عامر خان کی سپر ہٹ فلم ’تارے زمین پر‘ ڈسلیکسیا کے مرض کی نشاندہی کررہی تھی۔ دوسری جانب شاہ رخ خان کی فلم ’مائے نیم از خان‘ آٹسٹک انسانوں کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کی عکاس تھی۔  اعصابی نظام کے مرض پر حال ہی میں رانی مکھرجی کی  فلم ’ہچکی‘ بھی ریلیز ہوئی ہے۔ ان فلموں میں ’آٹزم‘ جیسے حساس موضوعات کو بڑے پردے پر پیش کرکے معاشرے میں اعصابی نظام کے امراض کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید