1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نامور سائنسدان آئن سٹائن کا ’خدا پر اعتقاد‘ برائے فروخت

امجد علی11 جون 2015

امریکا میں قائم ایک نیلام گھر ’پروفائلز اِن ہسٹری‘ نے نامور سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کے دو درجن سے زیادہ خطوط نیلامی کے لیے پیش کر دیے ہیں۔ اپنی ان تحریروں میں آئن سٹائن نے خدا سے متعلق اپنا تصور بھی بیان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FfiQ
Albert Einstein Porträt
ماہرِ طبیعیات البرٹ آئن سٹائن چَودہ جنوری 1931ء کو کارنیگی انسٹیٹیوٹ میں ایک بلیک بورڈ پر کائنات کے پھیلاؤ سے متعلق اپنی مساوات لکھ رہے ہیںتصویر: AP

جمعرات 11 جون سے ماہرِ طبیعیات البرٹ آئن سٹائن کے کوئی دو درجن سے زیادہ خطوط، جن میں سے کچھ انگریزی اور کچھ جرمن زبان میں ہیں، نیلامی کے لیے پیش کر دیے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ خطوط قلم سے تحریر کیے گئے ہیں جبکہ دیگر ٹائپ رائٹر کی مدد سے لکھے گئے ہیں۔

عشروں تک یہ خطوط نادر و نایاب چیزیں جمع کرنے والے ایک شخص کے پاس تھے۔ خطوط کا یہ مجموعہ آئن سٹائن کی ذاتی تحریروں کا ایسا سب سے بڑا مجموعہ ہے، جو اب تک فروخت کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

امریکی ریاست کیلی فورنیا کے سب سے گنجان آباد شہر لاس اینجلس میں ’پروفائلز اِن ہسٹری‘ نامی یہ نیلام گھر نادر اَشیاء اور مخطوطات کے ایک بڑے ڈیلر جوزیف میڈالینا نے 1985ء میں قائم کیا تھا۔ جوزیف میڈالینا نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ گفتگو میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان خطوط سے اس مایہ ناز سائنسدان کے اُن خیالات کو جاننے کا ایک نادر موقع ملتا ہے، جن کا اظہار اُنہوں نے اپنے ہم عصروں کے ساتھ پیچیدہ سائنسی نظریات پر بحث کرتے ہوئے کیا۔

Albert Einstein Gottesbrief Versteigerung
آئن سٹائن نے یہ خط اپنے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے لکھا تھا اور اس میں مذہب کے بارے میں اپنے خیالات رقم کیے تھےتصویر: Reuters

میڈالینا کا کہنا تھا:’’ہم سب جانتے ہیں کہ آئن سٹائن نے (سائنسی میدان میں)کیا کارنامے سرانجام دیے، کیسے اُنہوں نے اپنے نظریہٴ اضافت کے ذریعے دنیا کو تبدیل کر دیا۔ لیکن یہ خطوط کہانی کا دوسرا رُخ دکھاتے ہیں کہ کیسے وہ اپنے بچوں کو ہدایات دیتے ہیں، اُن کا خدا پر اعتقاد کیسا تھا۔‘‘

البرٹ آئن سٹائن اٹھارہ مارچ 1879ء کو جرمن شہر اُلم میں پیدا ہوئے اور اُن کا انتقال اٹھارہ اپریل 1955ء کو امریکا میں پرنسٹن کے مقام پر ہوا۔ اپنے ایک خط میں وہ اپنے بیٹے پر زور دیتے ہیں کہ وہ جیومیٹری پر زیادہ توجہ دے۔ ایک دوسرے خط میں وہ اپنی ایک ایسی دوست کو تسلی دیتے ہیں، جسے کچھ ہی عرصہ پہلے اپنے شوہر کی بے وفائی کا پتہ چلا تھا۔ ایک خط اُنہوں نے اپنے ایک انکل کو اُس کی ستّرویں سالگرہ پر تحریر کیا تھا۔ اس خط میں آئن سٹائن نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ کیسے اپنے اس انکل کی جانب سے ملنے والے بھاپ کے ایک کھلونا انجن نے اُن میں سائنس کے لیے عمر بھر کی دلچسپی پیدا کر دی تھی۔

عام طور پر سمجھا جاتا تھا کہ آئن سٹائن خدا پر یقین نہیں رکھتے تھے اور ایک لادین تھے۔ 1940ء کے عشرے میں خدا پر اعتقاد کے موضوع پر اُن کی ایک شخص کے ساتھ کچھ عرصہ خط و کتابت رہی۔ اسی شخص کے نام اپنے ایک خط میں آئن سٹائن نے لکھا:’’مَیں بار بار کہہ چکا ہوں کہ میرے خیال میں ذاتی خدا کا تصور ایک بچگانہ تصور ہے۔ آپ مجھے ایک مادہ پرست کہہ سکتے ہیں لیکن مَیں کسی پیش و ر ملحد کی جنگجویانہ سوچ کا حامی نہیں ہوں۔ مَیں فطرت اور انسانی وجود کو سمجھنے کے حوالے سے انسانی فکر و دانش کی کمزوریوں کے سامنے عاجزانہ طرزِ عمل اپنانے کو ترجیح دیتا ہوں۔‘‘

جوزیف میڈالینا امید کر رہے ہیں کہ اِن میں سے ہر خط پانچ ہزار تا چالیس ہزار ڈالر میں نیلام ہو سکتا ہے اور یوں اِن کے بدلے میں مجموعی طور پر پانچ لاکھ سے لے کر ایک ملین ڈالر تک کی رقم مل سکتی ہے۔ تاہم میڈالینا کہتے ہیں کہ بیس ویں صدی کے اہم اور نمایاں ترین ماہرِ طبیعیات کے خیالات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ خطوط انمول ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید