ناروے میں قتل عام: ذمہ دار ہوں گناہگار نہیں، بریہوک
14 نومبر 2011بریہوک نے رواں سال جولائی کی 22 تاریخ کو اوسلو میں بم دھماکہ کرکے سات افراد کی جان لی اور پھر ایک جزیرے میں خود کار ہتھیاروں کی مدد سے مزید 69 افراد کی جان لے لی تھی۔ گرفتاری کے بعد اپنے ابتدائی بیان میں اس نے کہا تھا کہ وہ اسلام کو یورپ میں پھیلنے سے روکنے کی ایک مقدس جنگ لڑ رہا ہے۔
تب سے وہ قید تنہائی میں ہے جہاں اس سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں اور نہ ہی اسے اخبار یا ٹیلی وژن کی سہولت میسر ہے۔ استغاثہ نے بریہوک پر عائد یہ پابندیاں نرم کرنے کی درخواست کی، جسے عدالت کے جج نے مسترد کیا۔ پیر کو دارالحکومت اوسلو کی عدالت میں ہوئی سماعت اس مقدمے کی پہلی عوامی سماعت تھی۔ جولائی کے واقعے کے بعد مارے جانے والوں کے لواحقین نے پہلی بار اپنے پیاروں کے قاتل کو اپنی آنکھوں کے سامنے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا دیکھا۔
سماعت کے دوران انہوں نے عدالت کی اہلیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا، ’’میں ناروے کی مزاحمتی تحریک کا ایک فوجی کمانڈر ہوں، میں اس عدالت کی اہلیت پر اعتراض کرتا ہوں کیونکہ اسے حاصل مینڈیٹ ایسے ادارے کی توسط سے ملا ہے جو کثیر الثقافتی نظریے کا حامی ہے۔‘‘ یاد رہے کہ بریہوک کثیر الثقافتی نظریے کی وجہ سے ناروے کی حکومت کا مخالف ہے۔ اس نے مزید کہا کہ وہ اپنے اعمال کا اعتراف کرتا ہے مگر اعتراف جرم نہیں کرتا۔
تیل کی پیداوار کے حوالے سے اہم ملک ناروے ایک پر امن اور کشادہ ذہن کے مالک معاشرے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بریہوک کے حملوں نے ناروے میں تارکین وطن کے انضمام، سلامتی اور قانونی امور سے متعلق نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ بریہوک نے کمرہء عدالت میں موجود افراد سے خطاب کی کوشش کی مگر عدالت کے جج نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ اوسلو کی عدالت نے فی الحال بریہوک کو زیر حراست ہی رکھنے کا حکم سنایا ہے۔ امکان ہے کہ اگلے سال کے وسط تک بریہوک زیر حراست رہے گا اور اس کے بعد اس کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: حماد کیانی