نائجیریا میں گرجاگھروں پر حملے، امریکہ و جرمنی کی جانب سے مذمت
26 دسمبر 2011ویٹی کن نے ان حملوں کو ’ظلم کا اظہار اور غیر معقول نفرت‘ قرار دیا، ’جس کے نزدیک زندگی کا کوئی احترام نہیں۔‘
واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے ’کرسمس کے روز جانوں کے درد ناک ضیاع‘ پر دُکھ کا اظہار کیا اور اس ’احمقانہ تشدد‘ کی مذمت کی۔
انہوں نے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں اور نائجیریا کے حکام سے تعزیت کی اور کہا: ’’ہم ابتدائی طور پر دہشت گردی ثابت ہونے والے ان واقعات پر نائجیریا کے حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ان کی معاونت کا عزم رکھتے ہیں۔‘‘
اِدھر برلن میں جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے بھی کرسمس کے روز نائجیریا میں ہونے والے حملوں کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’’حتیٰ کہ کرسمس کے روز بھی، بدقسمتی سے دہشت گردی کے خوف اور بزدلی نے اس دنیا کو نہیں بخشا۔‘‘
انہوں نے کرسمس ہی کے روز افغانستان میں ہونے والے ایک خود کش حملے کا ذکر بھی کیا، جس میں کم از کم بیس افراد ہلاک ہوئے۔
ویسٹر ویلے نے کہا کہ دہشت گردی، تشدد اور ظلم جیسی بُرائیوں کی سب کو سختی سے مخالفت کرنی چاہیے، نہ صرف نائجیریا اور افغانستان میں بلکہ شام، بیلا روس اور دوسری جگہوں پر بھی۔
نائجیریا میں اتوار کو گرجاگھروں پر کرسمس کی عبادات کے دوران سلسلہ وار حملے ہوئے۔ مقامی حکام نے ان کارروائیوں کی ذمہ داری اسلام پسند گروہ بوکو حرام پر عائد کی۔ انہوں نے صدر گُڈ لَک جوناتھن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نیشنل سکیورٹی سمٹ طلب کریں۔ جوناتھن کا کہنا ہے کہ بوکو حرام ایک دِن مِٹ جائے گی۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ایک شخص نے خود کو بوکو حرام کا ترجمان ظاہر کرتے ہوئے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، تاہم اس کے دعوے کی فوری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔
دوسری جانب مسیحیوں نے ان حملوں کے ردِ عمل میں ابوجہ میں احتجاج کے دوران ٹائر نذرِ آتش کیے اور نعرے بازی کی۔ ملک بھر میں سکیورٹی بھی مزید سخت کر دی گئی ہے۔
گزشتہ برس بھی کرسمس کے موقع پر نائجیریا کے وسطی اور شمالی علاقوں میں حملوں کے نتیجے میں اسّی سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: حماد کیانی