1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نائجیریا میں اسلامی شدت پسندی کی لہر

4 اگست 2009

افریقی ملک نائجیریا ان دنوں اسلامی انتہاپسندی کی لپیٹ میں ہے ۔ اس لہر کی تندی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ شمالی نائجیریا میں حالیہ دنوں کے دوران شدت پسندی کے باعث کئی سو افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

https://p.dw.com/p/J3ZF
نائجیریا:غریب ممالک کی فہرست میں 155نمبر پرتصویر: AP

نائجیرین معاشرے میں اسلامی شدت پسندی کا اظہار گذشتہ ہفتے اس وقت سامنے آیا، جب بوکو حرام نامی اسلامی انتہاپسند گروپ نے یکدم شمالی نائجیریا کے علاقوں میں سر اٹھایا اور سیکیورٹی اہلکاروں نے انہیں قابو میں کرنے کے لئے آپریشن شروع کیا۔ انتہا پسندوں کی پُر تشدد کارروائیوں اور بوکوحرام اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں آٹھ سو کے قریب شہری ہلاک ہوئے، جبکہ سیکیورٹی اہلکاروں نے بوکو حرام کے سرکردہ رہنما محمد یوسف کو بھی گذشتہ جمعرات کو ایک سرچ آپریشن کے دوران ہلاک کر دیا۔ نائجیرین حکومت کے مطابق ہلاک شدگان میں سے زیادہ تر کا تعلق بوکوحرام سے تھا، جبکہ باقی ماندہ افراد وہ شہری تھے، جنہیں شدت پسندوں نے تشدد کرکے ہلاک کیا۔

نائجیریا میں اسلامی انتہاپسندوں نے اپنے چند ساتھیوں کی گرفتاری پر باؤچی کی علاقے میں بغاوت شروع کی اور دیسی ساختہ بندوقوں، بموں اور خنجروں سے لیس ہوکر غیر مسلم آبادیوں پر حملے کئے۔ ان حملوں میں انہوں نے پولیس اہلکاروں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو بھی نشانہ بنایا۔

بوکوحرام نامی تنظیم کا ڈھانچہ اس کے سربراہ محمد یوسف نے سن 2004ء میں طالبان کی ابتدائی شکل پر ترتیب دیا۔ بوکوحرام نائجیریا کی ایک علاقائی زبان ہئوسا کا لفظی مرکب ہے، جس کے معنٰی ہیں کہ مغربی تعلیم اور اقدار گناہ ہیں۔ اس تنظیم کے کچھ ارکان کالج اور یونیورسٹیوں سے اپنی تعلیم اور نوکری چھوڑ کر اس کا حصہ بنے، جبکہ باقی ماندہ ارکان کی ایک بڑی تعداد غیر تعلیم یافتہ نائجیرین شہری ہیں۔

Feuergefechte in Nigeria
سیکیورٹی اہلکار شمالی نائجیریا میں گشت کرتے ہوئےتصویر: AP

شمالی نائجیریا کے شہر زاریا کی یونیورسٹی سے وابستہ سیاسی امور کے ماہر بیلو گوارزو، بوکو حرام کے ارکان اور محمد یوسف کی تعلیمات کی مقبولیت کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "بوکو حرام کی تعلیمات کی طرف راغب ہونے والے افراد میں سے زیادہ تعداد ان کی ہے، جو ملک میں مغرب زدہ اشرافیہ کو نائجیریا میں سماجی ناہمواریوں، غربت میں اضافے اور اخلاقی قدروں کی تنزلی کا ذمےدار سمجھتے ہیں۔"

بوکوحرام کا مقصد نائجیریا میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہے۔ گو کہ ملک کی 36 میں سے تقریباً 12 شمالی ریاستوں میں شرعی قوانین کا نفاذ 2000ء میں ہی کیا جا چکا ہے، بوکوحرام کا مطالبہ ہے، یہ نظام پورے نائجیریا پر نافذ کیا جائے اور مغربی تعلیم اور نظام حکومت کو ممنوعہ قرار دیا جائے۔ بوکوحرام کے ایک رکن نے کہا کہ "ہمارا مسئلہ نائجیریا میں نافذ وہ قوانین ہیں، جو خدا کی کتاب کے مطابق نہیں۔ اس ملک کا قانون شرعی نہیں ہے بلکہ یہ ہم انسانوں کا بنایا ہوا قانون ہے۔ ہم مغربی تعلیم کو رد کرتے ہیں اور قرآن اور محمد عربی کی تعلیمات پر یقین رکھتے ہیں۔ میں خود مغربی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرتا رہا ہوں تاہم میں نے اس تعلیم کو چھوڑ دیا، جب مجھے احساس ہوا کہ میں غلطی پر ہوں۔"

نائجیریا تیل کی پیداوار کے حساب سے دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے تاہم ایک سروے کے مطابق اس ملک کی ۹۲ فیصد آبادی کی فی کس آمدنی دو ڈالر روزانہ سے بھی کم ہے۔ نائجیریا کی حکومت کو گذشتہ سال تیل کی قومی پیداور سے 70 بلین ڈالر کی آمدنی ہوئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود غربت کے اعتبار سے نائجیریا دنیا کے 177 ممالک میں سے 155 ویں نمبر پر ہے۔

نائجیریا کی زیادہ تر آبادی مسلمان اور عیسائی ہے، جس کی وجہ سے گذشتہ دو عشروں میں بھی دونوں مذاہب کے ماننے والوں میں ایک دوسرے کے خلاف شدت پسندانہ جذبات موجود رہے ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی عشرے میں نائجیریا میں خانہ جنگی کے دوران ہزاروں افراد مارے گئے تھے، تاہم اس وقت مسلمان اور عیسائیوں کے درمیان مذہبی تنازعات موجود نہیں تھے۔ سماجی ماہرین نائجیریا میں، بالخصوص جنوبی علاقوں میں مسلم عیسائی تنازعات کی عدم موجوگی کو صوفی ازم کے تعلیمات سے تعبیر کرتے ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق نائجیریا میں غربت کی ایک بڑی وجہ حکومتی اداروں میں کرپشن ہے۔ تیل کی پیداوار سے ہونے والی آمدنی کا زیادہ تر حصہ حکومت اور بین الاقوامی تیل کمپنیوں کے پاس چلا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ملک کے غریب عوام میں استحصال کا احساس اور مذہبی تعلیمات سے شدید لگاؤ پیدا ہو رہا ہے۔

رپورٹ: انعام حسن

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں