1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میڈیا کو تحمل اور برداشت سیکھنا چاہیے‘

اسٹراک کرسٹوف/ کشور مصطفیٰ23 جولائی 2016

’دہشت گردی نام ہے ہیبت کا‘ میونخ میں فائرنگ کے واقعے پر ڈوئچے ویلے کا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/1JUdN
تصویر: Reuters

یہ ایک ُبری شام تھی اور رات بھی نہایت افسردہ ہے۔ فائرنگ، خون اور ہلاکتیں۔ پاگل پن، جنون یا دہشت گردی کا شبہ۔ دہشت گردی ان لوگوں کے لیے ہے جو میونخ کے ایک مشہور شاپنگ سینٹر میں ہونے والی فائرنگ کے وقت وہاں موجود تھے۔ یہ دہشت گردانہ واقعہ جنوبی جرمن صوبے باویریا کے پُر فخر دارالحکومت میں پیش آیا۔ باویریا جرمنی کا وہ صوبہ ہے جو اپنی پولیس کی پیشہ ورانہ مہارت اور کارکردگی اور اپنے چوکسی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اس صوبے میں پولیس اور نگراں اداروں کے سخت کنٹرول کے باعث اس پر کافی تنقید بھی کی جاتی ہے۔

دہشت گردی کی ہیبت جرمن شہروں میں بھی چھا چُکی ہے۔ یہ ہراس اور ہیبت پانچ سال قبل ناروے سے پھیلنا شروع ہوئی تھی۔ 22 جولائی 2011 ء کو دائیں بازو کے انتہا پسند بریوِک نے اُوسلو میں بم دھماکہ اور ایک قریبی جزیرے پر منعقد ہونے والے سمر کیمپ پر فائرنگ کرتے ہوئے 77 افراد کو قتل کر دیا تھا۔ ابھی تو چند روز قبل فرانسیسی شہر نیس میں ہونے والے خونریز دہشت گردانہ واقعے کی یاد دھندلائی بھی نہیں، جس میں 84 جانیں ضائع ہوئی تھیں

Deutschland Videostandbild von Polizisten während der Schießerei in München
میونخ فائرنگ کے دوران بنائی گئی ایک ویڈیو فلمتصویر: Reuters/dedinac/M. Müller

یہ نفرت کہاں سے آئی؟

جرمنی کے اسی جنوبی صوبے باویریا کے شہر وُورزبرگ کی ایک مقامی ٹرین میں چند دنوں پہلے ایک سترہ سالہ افغان پناہ گزین لڑکے نے مسافروں پر حملہ کرتے ہوئے چار افراد کو شدید زخمی کر دیا تھا۔ بعد ازاں پولیس نے حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ جرمنی پر پہلی مرتبہ اس واقعے کے بعد سکتہ طاری ہوا تھا اور یہ حقیقت سامنے آئی تھی کہ ایک ایسے نوجوان میں اتنی نفرت پائی جا سکتی ہے جس کی جرمنی اور اس کے عوام ہر طرح سے مدد کر رہے ہیں۔

اس ساری صورت حال کے بارے میں بہت سے انسانوں کو اپنے سوالات کے جوابات کبھی نہیں مل پائیں گے۔ یہ ذمہ داری ریاست اور اداروں کی ہے۔ اس وقت ہر پولیس اہلکار کا شکر گزار ہونا چاہیے جو انسانوں کی جانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے خود کو وقف کیے ہوئے ہیں۔

Deutschland Olympia Einkaufszentrum in München
دہشت گردی کا نشانہ بننے والا میونخ کا شاپنگ مالتصویر: Imago/Ralph Peters

سوشل میڈیا، جو سوشل ہونے کے سوا سب کچھ ہے

ایسے کٹھن لمحات میں سوشل میڈیا کے سوشل ہونے کے سوا سب کچھ نظر آتا ہے۔ غیر سماجی، غیر انسانی۔ جس وقت میونخ فائرنگ کے واقعے میں پہلی ہلاکت کی بھی تصدیق نہیں ہوئی تھی اور بہت سے دیگر افراد کی جانوں کو خطرات لاحق تھے، اُس وقت ٹوئٹر کے پہلے صارفین نے جرمن چانسلر کے مستعفی ہونے یا اُن کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ پرخوشیاں منانا شروع کردی تھیں۔

اس کے علاوہ اولمپیا شاپنگ سینٹر کی ہیجان سے بھرپور چند ٹیلی وژن تصاویر دیکھنے میں آئیں۔ چند ہی لمحوں بعد یہی تصویریں دوسرے چینل پر نظر آ رہی تھیں جن پر ’لائیو کا لیبل‘ لگا تھا۔ ’لائیو‘ میڈیا میں نہیں ہوتا بلکہ یہ اصطلاح ان لوگوں کے لیے موزوں ہے جو وقوعہ پر موجود ہوتے ہیں اور اپنی جانوں کو لاحق خطرات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ میڈیا کو بھی ذرا تحمل ذرا برداشت سے کام لینا سیکھنا چاہیے۔