1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرکل کے سیاسی کیرئیر کو درپیش ممکنہ چیلنجز

صائمہ حیدر
21 نومبر 2016

انگیلا میرکل نے چوتھی بار چانسلر بننے کے لیے اگلے برس انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ تاہم تجزیاتی رپورٹوں کے مطابق اِس بار اگر میرکل چانسلر منتخب ہوئیں تو یہ  اُن کے سیاسی کیرئیر کا سب سے بڑا امتحان ہو گا۔

https://p.dw.com/p/2T0Xj
Deutschland Angela Merkel auf dem Tourismusgipfel
میرکل یورپ کی آزاد خیال جمہوریت کے لیے آخری سب سے بڑی امید نظر آتی ہیںتصویر: picture alliance/dpa/W. Kumm

تجزیہ کاروں کے مطابق گیارہ سال سے جرمنی کی باگ ڈور سنبھالنے والی انگیلا میرکل کو منتخب ہونے کی صورت میں نہ صرف یورپ اور ٹرانس اٹلانٹک ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی بے یقینی کی صورتِ حال کا دفاع کرنا ہو گا بلکہ  یورپی اتحاد کو بھی سہارا دینا ہو گا جو امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کے بعد متاثر ہوا ہے۔

 انگیلا میرکل کو یورپی یونین کے ممالک کو نئے سرے سے باہمی طور پر قریب لانا ہو گا۔ جرمنی نے دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے تاہم اب یورپی یونین ٹوٹنے کے خطرات سے دو چار ہے۔ مزید براں امریکی صدر باراک اوباما کی وائٹ ہاؤس سے عنقریب روانگی کے تناظر میں بھی میرکل یورپ کی آزاد خیال جمہوریت کے لیے آخری سب سے بڑی امید نظر آتی ہیں۔

  باراک اوباما نے گزشتہ ہفتے برلن میں بطور امریکی صدر اپنے آخری دورے کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ اگر میرکل جرمنی کی چانسلر کی حیثیت سے اپنی خدمات جاری رکھتی ہیں تو اُن کو بڑے بوجھ اٹھانے ہوں گے۔  کاش میں اُن کا بوجھ کم کرنے کے لیے موجود ہوتا لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ ایک مضبوط لیڈر ہیں۔‘‘

 مختلف تجزیاتی جائزے یہ بتاتے ہیں کہ میرکل کو اگلی بار چانسلر منتخب ہونے کی صورت میں متعدد امتحانات سے گزرنا ہو گا۔ سب سے پہلے تو میرکل کو مہاجرین کے جرمنی میں آزادانہ داخلے کی پالیسی پر اپنی حلیف جماعتوں میں پیدا ہونے والے اختلافات کو ختم کرنا ہو گا۔

Deutschland - NATO Gipfel mit Barack Obama und Angela Merkel
باراک اوباما کے مطابق میرکل کو جرمنی کی چانسلر کی حیثیت سے بڑے بوجھ اٹھانے ہوں گے تصویر: picture-alliance/dpa/J. Koch

 یاد رہے کہ میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیمو کریٹک یونین کو رواں برس جرمنی کی دو ریاستوں میں ہونے والےانتخابات میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا جہاں ووٹرز نے میرکل کی مہاجرین کے لیے جرمنی میں آزادانہ داخلے کی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے مہاجر مخالف جماعت اے ایف ڈی کو ووٹ دیے تھے۔ میرکل کی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کی ہم خیال جماعت کرسچن سوشل یونین کی جانب سے اِس شکست پر جرمن چانسلر کی مہاجرین کے لیے پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

جرمن چانسلر میرکل کو آئندہ  انتخابی مہم ایک ٹوٹے پھوٹے سیاسی منظر نامے والے جرمنی میں چلانا ہو گی۔ یہ ایک ایسا منظر نامہ ہو گا جہاں انتہائی دائیں بازو کی نئی سیاسی جماعت ’متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی ممکنہ طور پر پہلی مرتبہ قومی پارلیمان میں داخل ہو رہی ہو گی۔

 میرکل کے ممکنہ اتحادی سوشل ڈیمو کریٹس ہو سکتے ہیں، جو میرکل کی قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچن ڈیمو کریٹک یونین سے دس پوائنٹس پیچھے ہیں اور جو اب بھی حکومتی اتحاد میں شامل ہے۔ تاہم اے ایف ڈی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیشِ نظر اتحاد کی نوعیت پیچیدہ ہو سکتی ہے اور میرکل کا ووٹ بینک بھی متاثر ہو سکتا ہے۔