1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرکل اور شلس کا ٹی وی مباحثہ، اہم موضوعات کیا تھے؟

عاطف بلوچ David Martin (dpa, Reuters)
4 ستمبر 2017

جرمن الیکشن کی انتخابی مہم کے سلسلے میں میرکل اور مارٹن شلس کے مابین ہونے والے ٹی وی مباحثے میں میرکل کا پلڑا بھاری رہا۔ اتوار کی رات دونوں سیاستدانوں نے اہم داخلی اور خارجی معاملات پر اپنی اپنی پارٹیوں کا موقف بیان کیا۔

https://p.dw.com/p/2jJNo
Bundestagswahl TV-Duell Merkel skeptisch Schulz ernst
تصویر: Reuters/RTL

تین ستمبر بروز اتوار کی رات کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی سربراہ انگیلا میرکل اور مرکزی اپوزیشن جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے رہنما مارٹن شلس نے ٹی وی مباحثے میں شرکت کی، جس کا مقصد ووٹرز تک اپنا اپنا انتخابی منشور پہنچانا اور ان کی حمایت حاصل کرنا تھا۔ چوبیس ستمبر کے پارلیمانی انتخابات سے قبل ان دونوں اہم پارٹیوں کی انتخابی مہم جاری ہے۔ مارٹن شلس پہلی مرتبہ چانسلر کے امیدوار ہیں جبکہ میرکل چوتھی مرتبہ اس پوزیشن کو حاصل کرنے کی خاطر فعال ہیں۔

جرمن الیکشن: میرکل اور شُلس کے درمیان ٹی وی مباحثہ

دوبارہ ویسا ہونے کی توقع نہیں، جرمن وزیر داخلہ

جرمنی کا آئندہ چانسلر میں ہوں گا، مارٹن شلس

ناظرین کی طرف سے جمع کردہ رائے سے معلوم ہوا ہے کہ نوّے منٹ دورانیے کے اس ٹی وی مباحثے کے دوران قدامت پسند سیاستدان انگیلا میرکل اپنے حریف سیاستدان مارٹن شلس پر حاوی نظر آئیں۔ جرمن براڈ کاسٹر اے آر ڈی کے ایک جائزے کے مطابق انچاس فیصد ناظرین نے کہا کہ اس مباحثے کے دوران میرکل زیادہ پراعتماد تھیں جبکہ انتیس فیصد ناظرین نے شلس کو زیادہ بہتر پایا۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اس مباحثے میں کن موضوعات پر گفتگو ہوئی اور ان دونوں رہنماؤں نے کس طرح اپنا اپنا موقف بیان کیا۔

مہاجرت

مہاجرین کا حالیہ بحران اس ٹی وی مباحثے کا نہ صرف پہلا بلکہ مرکزی موضوع رہا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے موقف کا دفاع کیا کہ مہاجرین کی خاطر ملکی سرحدیں کھولنے کا فیصلہ درست تھا۔ اس معاملے پر شلس نے میرکل سے اتفاق کیا لیکن تنقید کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر بہتر طریقہ کار اپنایا جا سکتا تھا۔

جرمنی میں انتخابات کیسے ہوتے ہیں؟

مارٹن شلس نے یہ بھی کہا کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر میرکل دیگر یورپی ممالک کے ساتھ مل کر ایک منظم حکمت عملی بنانے میں ناکام ہو گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے ہمسایہ یورپی ممالک کو ساتھ ملایا جاتا تو اس بحران سے نمٹنے میں زیادہ بہتر مدد مل سکتی تھی۔

شلس نے کہا کہ یورپی یونین کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے سے پولینڈ اور ہنگری جیسے ممالک بھی مہاجرین کی آباد کاری میں زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے۔

 

یہ امر اہم ہے کہ کئی یورپی ممالک میرکل کی مہاجر پالیسی سے اختلاف رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنے ممالک میں مہاجرین کی آباد کاری کو مسترد کر رکھا ہے۔ میرکل نے شلس کی اس تنقید کے جواب میں کہا کہ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان اس تناظر میں تعاون کرنے سے بالکل انکار کر چکے ہیں، ’’ہمیں ایک ڈرامائی صورتحال کا سامنا ہے۔‘‘ ساتھ ہی میرکل نے کہا کہ کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں کہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور انہوں نے اس بحران سے نمٹنے کی خاطر درست فیصلہ کیا ہے۔

چانسلر شپ کے دونوں امیدواروں نے اس بات پر بھی اختلاف کیا کہ جرمنی میں مستقبل کی مہاجرین کی پالیسی کیا ہونا چاہیے۔ شلس نے زور دیا کہ امیگریشن پر یورپی سطح کی پالیسی بنانا چاہیے جبکہ میرکل نے اصرار کیا کہ وہ ہنر مندی پر مبنی پالیسی کی حمایت کرتی ہیں تاکہ اس سے نہ صرف مہاجر اپنے ہنر اور قابلیتوں کو استعمال کرتے ہوئے مستقید ہوں بلکہ اقتصادی سطح پر جرمنی کو بھی فائدہ ہو۔

ترکی

ترکی اور جرمنی کے مابین کشیدہ تعلقات بھی اس ٹی وی مباحثے میں اہمیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انگیلا میرکل نے کہا کہ وہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی خاطر جاری مذاکراتی سلسلے کو ختم کر دینے کی حامی ہیں۔ انہوں نے انتہائی واضح الفاظ میں کہا کہ ترکی کو یورپی یونین کا رکن ملک نہیں بننا چاہیے۔

مارٹن شلس نے بھی کہا کہ اگر وہ جرمن چانسلر بننے میں کامیاب ہوئے تو وہ اس تناظر میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین جاری مذاکرات کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ حالیہ عرصے میں جرمنی اور ترکی کے مابین کئی اختلافات ابھر کے سامنے آ چکے ہیں، جس کے باعث ان دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں سرد مہری نمایاں ہو چکی ہے۔

شمالی کوریا اور ڈونلڈ ٹرمپ

مہاجرت اور ترکی کے بعد اس ٹی مباحثے کا تیسرا اہم موضوع شمالی کوریا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رہے۔ مارٹن شلس نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’ناقابل پیش گوئی‘ شخصیت کے باعث وہ شمالی کوریا کے ساتھ ڈیل کرنے کے لیے مناسب نہیں ہیں۔

اس موقع پر میرکل نے ایک عالمی رہنما کے طور پر عمل کرتے ہوئے کہا کہ پیونگ یانگ کی طرف سے خطرات کے تناظر میں انہوں نے اتوار کے دن ہی فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں سے گفتگو کی اور جلد ہی وہ ٹرمپ کے علاوہ روسی، چینی، جاپانی اور جنوبی کوریائی رہنماؤں سے بھی مذاکرات کریں گی۔

انگیلا میرکل نے یہ بھی کہا کہ وہ کئی معاملات اور پالیسیوں پر امریکی صدر ٹرمپ سے اختلاف رکھتی ہیں لیکن شمالی کوریا کا مسئلہ ایسا ہے، جو امریکی تعاون کے بغیر حل کرنا مشکل ہو گا۔ تاہم انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ اس مسئلے کے حل کی خاطر صرف پرامن اور سفارتی حل کی وکالت کرتی ہیں۔

سماجی انصاف

پارلیمانی الیکشن سے قبل ہونے والے اس ٹی مباحثے میں سوشل جسٹس کے معاملے پر میرکل اور شلس کے موقف میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا تاہم شلس نے خود کو سماجی انصاف کے حوالے سے ایک ماہر دکھانے کی کوشش ضرور کی۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی ایک خوشحال ملک ہے لیکن معاشرے کے کئی طبقوں میں جیسا کہ تنہا والد یا والدہ، ریٹائرڈ افراد اور طویل عرصے سے بے روزگار افراد بہت سے مراعات سے محروم ہیں۔

تاہم میرکل نے جواب میں اپنے دور اقتدار میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ریکارڈ کا دفاع کیا اور کہا کہ ان کے بارہ سالہ دور حکومت میں بے روزگاری کی شرح پانچ فیصد سے کم ہو کر 2.5 فیصد ہوئی ہے۔ انہوں نے ایسے دعوؤں کو مسترد کر دیا کہ حکومت ریٹائرمنٹ کی عمر ستر برس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ میرکل نے کہا کہ ان کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں ہوگا۔

ڈیزل گیٹ اسکینڈل پر بھی دونوں رہنماؤں میں کوئی زیادہ فرق نہ دیکھا گیا۔ میرکل اور شلس نے مستقبل میں ڈیزل گاڑیوں پر ممکنہ پابندی کو خارج ازامکان قرار دے دیا۔ میرکل نے کہا کہ جرمنی میں آٹو انڈسٹری سے بہت سی لوگوں کی ملازمتیں جڑی ہوئی ہیں۔

تاہم جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کی گاڑيوں سے نکلنے والے دھوئيں کی درست مقدار چھپانے سے متعلق اسکينڈل پر میرکل نے کہا کہ اس دھوکا دہی میں ملوث متعلقہ حکام کے خلاف مناسب کارروائی ضرور کی جانا چاہیے۔