1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمارکی نظربند خاتون لیڈر: مغربی سفیروں سے ملاقات

رپورٹ:عابد حسین ، ادارت : امجد علی10 اکتوبر 2009

میانمار کی فوجی حکومت نےعالمی سطح پر اپنے ملک کی تنہائی ختم کرنے کے سلسلے میں ایک نئی کوشش کا آغاز کیا ہے۔ اِس سلسلے میں مقید نوبل انعام یافتہ خاتون سیاسی لیڈر آنگ سان سوچی کو مغربی سفیروں سے ملاقات کی اجازت دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/K3RL
تصویر: AP

نظر بند اپوزیشن لیڈر سُوچی نے برما کے بڑے شہر ینگون میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے سفارت خانوں کے سربراہوں سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس میں ہوئی اور تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی۔

اِن ملاقاتوں سے پہلے سوچی نے میانمارکے اعلیٰ فوجی جنرل تھان شوے کو ایک خط تحریر کیا تھا، جِس کی تصدیق ینگون میں امریکی سفارت خانے کے ترجمان ڈریک ویزرٹ نے بھی کی ہے۔ ویزرٹ کا مزید کہنا تھا کہ ملاقات کے دوران میانمار پرعائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں پر بھی گفتگو کی گئی۔ لیکن سفیروں سے ملاقات کے دوران زیر بحث لائے جانے والے نکات کی تفصیل بیان نہیں کی گئی۔ برطانوی سفیر اینڈریو ہین کا کہنا تھا کہ خاتون سیاسی لیڈر پابندیوں کے حوالے سے خاصی متفکر دکھائی دیتی تھیں۔ اینڈریو ہین پہلے مغربی سفارت کار تھے، جنہوں نے سن 2003ءکے بعدخاتون لیڈر سے ملاقات کی تھی۔ برطانوی سفارت کار کے خیال میں پابندیوں کے خاتمے سے متعلق مذاکراتی عمل کا حتمی فیصلہ تو برسلز میں ہو گا اور تب ہی کوئی صورت حال واضح ہو گی۔ اِسی طرح آسٹریلیا کی وزارت خارجہ نے بھی سفیروں کے ساتھ سوچی کی ملاقات کو فوجی حکومت کا ایک مثبت قدم قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اِس تعمیری عمل کے باعث مستقبل میں رابطوں میں مزید وسعت پیدا ہو سکے گی۔ امریکہ نے ایک بار پھر میانمار پر عائد پابندیوں میں نرمی کو جمہوری اقدار کے فروغ کے ساتھ مشروط کیا ہے۔

Myanmar Birma Burma Junta trifft sich mit der Opposition Aung San Suu Kyi
آونگ سوچی کی فوجی حکومت کے وزیر سے ملاقات کی خبر ایک ماینمار کے اخبار میں۔تصویر: AP

خاتون اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی کا خیال ہے کہ ان ملاقاتوں سے وہ اپنے ملک پر عائد پابندیوں کو اگر پوری طرح ختم نہ کروا سکیں تو شاید اِن میں نرمی پیدا کروانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ اِن ملاقاتوں کے حوالے سے فوجی حکومت نے سوچی کی نظر بندی میں نرمی پیدا کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ فوجی حکومت کی جانب سے جاری بیان میں پابند خاتون لیڈر کے ساتھ تکریم کے الفاظ کا استعمال بھی کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ جو کرنا چاہتی ہیں، وہ مناسب ہے اور اچھا ہے۔ وہ جو چاہتی ہیں وہ اُن کو فراہم کیا جا رہا ہے۔

Suu-Kyi Prozess in Rangun
سوچی کے وکیل نیان ونتصویر: AP

گمان کیا جا سکتا ہے کہ اِنہی خطوط پر اُن کی جنرل تھان شوے سے خط و کتابت ہوئی ہو گی۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نظر بند خاتون رہنما کی پیشرفت کا تعلق میانمار کے خلاف امریکی پالیسی میں حالیہ تبدیلی کے اُس فیصلے سے ہے، جس میں فوجی حکومت کے ساتھ بات چیت کا عمل دوبارہ شروع کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔

خاتون لیڈر کے وکیل نیان ون کے مطابق ان کو مغربی حکومتوں کی جانب سے عائد شدہ پابندیوں کی تفصیلات بھی درکار ہیں۔ نیان ون کا یہ بھی کہنا ہے کہ اعلیٰ فوجی جنرل تھان شوے سے بہت جلد اُن کی مؤکلہ سوچی کی ملاقات کا بھی امکان ہے۔ اِس ممکنہ ملاقات کے حوالے سے مغربی سفارتکاروں کا خیال ہے: یہ ایک ایسا موقع ہو گا، جس میں وہ شاید فوجی جنرل کو ملک کے سیاسی منظر نامے پر اپنے ایک فعال کردار کے لئے قائل کر سکیں گی۔

میانمار یا سابقہ برما کی مقبول اور نظر بند چونسٹھ سالہ خاتون سیاسی لیڈر سے گزشتہ ہفتے کے دوران فوجی حکومت کے رابطہ وزیر اونگ کائی نے دو بار ملاقات کی تھی۔ یہ وزیر سوچی اور فوجی حکومت کے درمیان رابطہ کاری کے لئے مقرر ہیں۔ اِس سے قبل اُن کی نظربندی میں توسیع کے خلاف اپیل کو بھی حکومتی عدلیہ نے مسترد کر دیا تھا۔ دوسری جانب اِس بات کا بھی امکان ہے کہ میانمار کے ممکنہ وزیر اعظم Thein Sein اگلے ماہ سنگا پور میں جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کے ساتھ امریکی صدر اوباما کی سنگاپور میں ہونے والی ملاقات میں شرکت کریں گے۔