1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار کی خاتون اپوزیشن رہنما کے خلاف مقدمے کی سماعت

رپورت:میراجمال، ادارت:مقبول ملک18 مئی 2009

میانمار میں حزب اختلاف کی رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف مقدمے کی سماعت پیر کو Insein جیل میں شروع ہوئی۔

https://p.dw.com/p/HsvG
تصویر: AP

اس مقدمے میں 63 سالہ سوچی پرالزام ہے کہ گذشتہ ماہ انہوں نے نظر بندی کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک امریکی شہری کو اپنے گھر میں رکھا تھا۔ اس متنازعہ مقدمے کی وجہ سے میانمار حکومت کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔

Aung San Suu Kyi
63 سالہ سوچیتصویر: AP

گذشتہ 19 میں سے 13 برس قید یا نظر بندی کی زندگی گذارنے والی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو گذشتہ ہفتے ہی Insein جیل منتقل کردیا گیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ اپریل میں جان یٹیاو John Yettaw نامی ایک امریکی شہری ان کی رہائش گاہ کے قریب واقع ایک جھیل پار کرکے سوچی کے گھر تک پہنچا تھا۔ اس پر حزب اختلاف کی اس لیڈر نے اسے دو روز تک اپنے گھر میں رکھا تھا۔ اس مقدمے میں عدالتی فیصلہ اگر سوچی کے خلاف ہوتا ہے تو انہیں تین سے پانچ سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

ینگون میں اس مقدمے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے Insein جیل کے باہرسوچی کے حمائتی بڑی تعداد میں دھرنا دئے ہوئے ہیں اور اپنے مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سوچی کے خلاف اس مقدمے کی سماعت آج پیر سے شروع تو ہوگئی ہے تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ یہ کارروائی کب تک مکمل ہوگی۔ حکومت سوچی کے خلاف اپنا موقف ثابت کرنے کے لئے 22 عینی شاہدین کو عدالت میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

میانمار میں جمہوریت کی علامت سمجھی جانے والی اس خاتون سیاستدان کے ساتھ ملکی حکومت کےرویہ کو وجہ بناتے ہوئے یورپی یونین کے وزرا خارجہ نے برسلز منعقدہ اپنے ایک اجلاس میں میانمار پر اقتصادی پابندیاں عائد کئے جانے کا ذکر کیا۔ یورپی یونین میانمار کے خلاف پہلے بھی پابندیاں عائد کرچکی ہے جو ابھی تک نافذ ہے مگر میانمار کی حکومت پر ابھی تک کوئی اثر نہیں ہوا۔

اس حوالے سے یورپی یونین کے خارجہ سیاسی امور کے نگران عہدیدار خاوئیر سولانا نے کہا : "یہ وہ وقت نہیں ہے کہ میانمار پر پابندیاں کم کی جائیں، بلکہ یہ وقت ہے کہ ان پابندیوں میں اضافہ کیا جائے"۔

Demonstration für die Freilassung San Suu Kyi in Japan
سوچی کی رہائی کے لئے مظاہرہتصویر: AP

اسی اجلاس کے بعد برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے سوچی کی گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا : "آنگ سان سوچی کی نظر بندی پہلے ہی غلط ہے اور اب انہیں قید کئے جانے سے ان کی تکلیف میں اضافہ ہوا ہے"۔

یورپی یونین کا میانمار کی داخلی سیاست کے بارے میں موقف بہت واضح ہے۔ گذشتہ ماہ یونین نے آنگ سان سوچی کی نظر بندی کو انسانی حقوق کی حلاف ورزی قرار دیا تھا۔

سیاسی ماہرین کے مطابق موجودہ حکومت کی طرف سے اس نئے مقدمے اور قومی لیگ برائے جمہوریت کی رہنما کی جیل منتقلی کا اصل مقصد سوچی کو اگلے برس ہونے والے انتخابات سے دور رکھنا ہے۔