میانمار پر پابندیاں: ہیگ اور سوچی یک زبان
6 جنوری 2012نوبل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی سے ایک نیوز کانفرنس کے دوران جب یہ پوچھا گیا کہ پابندیاں اٹھائے جانے سے پہلے وہ کیا ہوتا ہوا دیکھنا چاہتی ہیں۔ اس پر انہوں نے اپنے ساتھ کھڑے ولیم ہیگ کے وہ الفاظ ہی دہرائے، جو انہوں نے محض ایک روز پہلے ادا کیے تھے۔
سوچی نے کہا کہ تمام سیاسی قیدی رہا کیے جانے چاہیں اور ملک کو درپیش نسلی تصادم کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں کی جانی چاہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ آزاد اور شفاف ضمنی انتخابات بھی چاہتی ہیں۔
ولیم ہیگ 1955ء کے بعد سے میانمار کا دورہ کرنے والے پہلے برطانوی وزیر خارجہ ہیں۔ اپنے اس دورے میں انہوں نے میانمار کے صدر تھین سین سے بھی ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’صدر نے مجھے ان الفاظ میں بتایا ہے کہ جمہوریت کی جانب پیش رفت کا عمل ناقابل تنسیخ ہے۔ ان کے الفاظ اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن ہم مزید اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں، جن میں دیگر قیدیوں کی رہائی اور آزاد و شفاف انتخابی عمل شامل ہیں، تب ہی دنیا ان پر اعتبار کرے گی۔‘‘
دوسری جانب یورپی یونین نے میانمار میں اپنا نمائندہ دفتر کھولنے کا عندیہ دیا ہے، جو وہاں یونین کے امدادی منصوبوں کی نگرانی کرنے اور سیاسی شعبے میں مکالمت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
یورپی یونین کی سربراہ برائے خارجہ امور کیتھرین ایشٹن کے ترجمان مائیکل من کا کہنا ہے کہ یہ دفتر ینگون میں کھولا جائے گا اور اس سلسلے میں میانمار حکومت سے بات چیت مکمل ہو چکی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس دفتر کا عملہ محدود ہو گا اور یہ بنکاک میں قائم یورپی یونین کے دفتر کے ماتحت ہو گا۔ مائیکل من نے بتایا کہ گو کہ یہ دفتر امدادی پروگراموں کی نگرانی کے لیے قائم کیا جا رہا ہے لیکن اس کا ایک سیاسی کردار بھی ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کو فروغ دینے کی کوشش کرے گا۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: امتیاز احمد