1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار میں عام معافی، مغرب سے تعلقات بڑھانے کی ابتدا

12 اکتوبر 2011

آج بدھ کو میانمار کی حکومت نے عام معافی کے تحت 300 کے قریب سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نصف صدی کی آہنی گرفت کے بعد ملک بالآخر دنیا سے تعلق دوبارہ استوار کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/12qXx

میانمار کی جمہوریت پسند نوبل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی نے ان افراد کی رہائی پر حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ مزید سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔

حال ہی میں اعلان کی گئی معافی کے تحت سیاسی قیدیوں سمیت کل 6,359 قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اس اقدام پر محتاط تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہےکہ یہ ایک حوصلہ افزا پیشرفت ہے مگر ابھی اس کے ردعمل میں واشنگٹن کے اقدامات کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا نے کہا ہے کہ میانمار پر عائد پابندیاں اٹھانے پر غور کرنے سے قبل ملک میں موجود 2,100 سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا ناگزیر ہے۔

Artikelbild Gandhi lehrte die Welt Aung San Suu Kyi
میانمار کی جمہوریت پسند نوبل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی نے امید ظاہر کی ہے کہ مزید سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے گاتصویر: DW/AP

رہا ہونے والی سب سے ممتاز شخصیت برمی بھکشوؤں کے اتحاد یعنی All-Burmese Monks Alliance کے رہنما شن گمبیرا کی ہے جنہوں نے 2007ء میں سڑکوں پر مظاہروں میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ان مظاہروں کو اس وقت کی فوجی حکومت نے سختی سے کچل دیا تھا۔ انہیں 68 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

رہائی پانے والے ایک اور ممتاز سیاسی قیدی زرگنر کو اس وقت کے فوجی جنرلوں کو ’طوفان نرگس‘  میں بر وقت ردعمل ظاہر نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنانے پر 59 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔  ارا وادی میں آنے والے اس طوفان میں 1 لاکھ 40 ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اسی طرح شان نسل کے ایک اور رہنما سائی سے ہتان کو بھی رہا کیا گیا ہے، جنہیں 2005ء میں 104 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اگرچہ میانمار کی حکومت ماضی میں بھی سیاسی قیدیوں کو رہا کرتی رہی ہے مگر یہ صرف ایک نمائشی اقدام رہا ہے۔ تاہم اس بار یہ امید کی جا رہی ہے کہ حکومت سنجیدہ ہے کیونکہ کچھ عرصے سے میانمار کی حکومت چین سے فاصلہ رکھتے ہوئے مغرب سے قربتیں بڑھا رہی ہے۔

میانمار کے موجودہ صدر تھین سین ویسے تو ریٹائرڈ جنرل ہیں مگر وہ نصف صدی میں ملک کے پہلے سویلین سربراہ مملکت ہیں اور انہوں نے بعض مثبت اقدامات اٹھائے ہیں جن میں نسلی اقلیتوں کو قومی دھارے میں زیادہ شامل کرنا، محدود تنقید کی اجازت دینا اور آنگ سان سوچی کی 15 سالہ نظر بندی ختم کرنا شامل ہیں۔

Myanmar Birma Politische Häftlinge werden freigelassen Zarganar
رہائی پانے والے ایک اور ممتاز سیاسی قیدی زرگنر کو فوجی جنتا پر تنقید کی پاداش میں 59 برس قید کی سزا سنائی گئی تھیتصویر: AP

میانمار میں تبدیلی کے لیے مختلف محاذوں سے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف عوامی نفرت کے باعث اس کا متبادل تلاش کرنے سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا میں میانمار کی تنہائی پر بڑھتی ہوئی مایوسی بھی شامل ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک 2015ء تک یورپی یونین کی طرز پر ایشیائی کمیونٹی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ میانمار کی جانب سے بیرونی دُنیا کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی کی خواہش میں عالمی بینک اور دیگر کثیر الملکی مالیاتی اداروں سے تکنیکی امداد کی ضرورت کا بھی عمل دخل ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی 30 فی صد آبادی غربت میں زندگی بسر کرتی ہے۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں