میانمار میں صدارتی الیکشن: امیدواروں کا اعلان
10 مارچ 2016آج جمعرات کے روز میانمار کی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں کے اجلاس میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے نامزدگیوں کا اعلان کیا۔ توقعات کے مطابق تِن چاء کو نامزد کیا گیا۔ وہ سوچی کے دیرینہ رفیق ہیں اور انہوں نے بھی آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ اُن کے والد مِن تھُو وُون میانمار کے بڑے شاعروں اور ادیبوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وُون سن 1990 کے الیکشن میں پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔ تِن چاء کے سُسر فوج کے سابق کرنل اور نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ ایوانِ بالا سے سوچی کی پارٹی نے چِن اقلیت سے تعلق رکھنے والے ہنری وان تی یُو کو نامزد کیا ہے۔
مدت پوری کرنے والی حکومت کی سیاسی جماعت سولیڈیریٹی اینڈ ڈیویلپمنپ پارٹی نے بھی دو امیدواروں کو نامزد کر دیا ہے۔ ان میں ایک سائی مؤک کھام ہیں۔ کھام آج کل نائب صدر ہیں۔ دوسری نامزدگی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کے سابق اسپیکر کھِن اونگ مینٹ کی ہے۔ صدارتی انتخابات کے لیے تیسری نامزدگی فوج کی جانب سے سامنے آئے گی۔ میانمار کے دستور کے تحت فوج بھی صدارتی الیکشن کے لیے اپنا امیدوار کھڑا کرنے کی مجاز ہے۔ فوج کو دستور ہی کے تحت پارلیمنٹ میں پچیس فیصد نشستیں حاصل ہیں۔ صدارتی الیکشن کے لیے ووٹنگ رواں مہینے کے اگلے ایام میں ہو گی اور نیا صدر پہلی اپریل کو اپنے منصب کا حلف اٹھائے گا۔
آج جن نامزدگیوں کا اعلان کیا گیا ہے، ان کے حوالے سے نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے اراکین نے پارٹی لیڈر آنگ سان سوچی کی قیادت میں کئی ایام سے بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ اسی دوران سوچی نے ملکی فوج کے سربراہ سے بھی بند دروازے کے پیچھے کئی ملاقاتیں کی تھیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ ان ملاقاتوں میں اُس دستوری شق کو نرم یا ختم کرنے کے حوالے سے فوج کے سربراہ کو قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں، جو اُن کے صدر بننے کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ وہ آج پارلیمنٹ میں نامزدگیوں کے سیشن میں بھی شریک نہیں تھیں لیکن فیس بک پر انہوں نے لکھا کہ عوامی خوابوں اور امنگوں کی تعبیر کی جانب یہ نامزدگیاں پہلا قدم ہے۔
اِن اعلانات کے ساتھ ہی نوبل انعام یافتہ خاتون سیاستدان نے ایک طرح سے واضح کر دیا کہ وہ اپنے ملک کے صدارتی الیکشن کی دوڑ میں شامل نہیں ہیں۔ آئین میں ایک خاص شق کی وجہ سے سوچی صدارتی الیکشن میں شامل نہیں ہو سکتیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ سوچی ملک کی صدر تو نہیں بنیں گی لیکن وہ اصل قوت کا سرچشمہ ہوں گی اور حکومت کو مختلف امور میں ہدایات دیتی رہیں گی۔ پارلیمانی الیکشن میں کامیابی کے بعد ہی سوچی نے کہہ دیا تھا کہ اگلی حکومت میں اُن کی حیثیت ملکی صدر سے بلند ہو گی۔