1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار بدعنوانی اور نسلی فسادات کی زد میں

29 نومبر 2011

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اس ہفتے میانمار کا دورہ کر رہی ہیں۔ وہ ایک ایسے ملک کا دورہ کرنے جا رہی ہیں، جہاں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران جمہوری قدروں کو فروغ حاصل ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/13IQp

 تاہم کئی دہائیوں سے آمریت کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے اس ملک میں بدعنوان معیشت اور نسلی فسادات کی روک تھام  دیرینہ حل طلب مسائل ہیں۔گزشتہ برس نومبر میں عام انتخابات کے بعد حکومت نے سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ نوبل امن انعام یافتہ اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی کے ساتھ تعاون کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا تھا۔انہی اقدامات کی عالمی سطح پر پذیرائی کے یہ ثمرات ہیں کہ گزشتہ 56 برسوں میں پہلی مرتبہ کوئی بھی امریکی اعلٰی سفارتی عہدیدار اس ملک کا دورہ کر رہا ہے۔

Myanmar Birma Aung San Suu Kyi
نوبل امن انعام یافتہ اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچیتصویر: dapd

عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی نئی حکومت میں بھی آمرانہ رجحانات کا غلبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1962ء میں فوج کے اقتدار سنبھالنے کے بعد دہرائی جانے والی غلطیوں کی اصلاح کے لیے کیے جانے والے اقدامات ناکافی ہیں۔ دوسری طرف عام انتخابات کے بعد فوج اور مزید خود مختاری کا مطالبہ کرنے والے مختلف اقلیتی گروپوں کے درمیان جھڑپوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ میانمار حکومت کی ابتدائی سیاسی اصلاحات میں اقتصادی شعبے کی بہتری کا عنصر بھی شامل ہے۔ کسی زمانے میں میانمار جنوب مشرقی ایشیا کا ایک خوشحال ملک تصور کیا جاتا تھا تاہم  تاہم اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق آج کل اِس کا شمار خطے کے کم ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔

گزشتہ دو برسوں کے دوران حکومت سرکاری اداروں کی نجکاری کے عمل میں تیزی لائی ہے لیکن اس اقدام میں بھی شفافیت کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں کیونکہ اہم سرکاری اداروں کو خریدنے والے زیادہ تر حکومتی سرپرستی کے حامل افراد یا ملٹری کے زیر انتظام چلنے والے ادارے ہیں۔ بدعنوانی کے خلاف سرگرم جرمن ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے 2010ء میں مرتب کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر بدعنوانی اور لاقانونیت کے لحاظ سے میانمار 178 ممالک میں سے 176ویں درجے پر تھا۔

Myanmar Burma General Thein Sein
میانمار کے صدر تھین سینتصویر: AP

میانمار کے صدر تھین سین نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے ابتدائی خطاب میں درمیانے اور چھوٹے درجے کی صنعتوں کے فروغ اور عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے ٹیکسوں اور مالیاتی نظام میں اصلاحات کا وعدہ کیا تھا تاہم اب تک اس حوالے سے ایک معمولی سی تبدیلی ہی دیکھنے کو ملی ہے۔ اقتصادی اصلاحات کے ساتھ ساتھ دوسرا اہم مسئلہ نسلی فسادات ہیں۔ میانمار کے مغربی، شمالی اور جنوبی حصوں میں مختلف اقلیتیں آباد ہیں اور ملک کی 55 ملین آبادی کا ایک تہائی حصہ ان اقلیتیوں پر مشتمل ہے۔

فوج اور مختلف اقلیتی گروپوں کے درمیان فسادات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ان میں سے کچھ گروپ فوج کے ساتھ فائر بندی کے معاہدے پر کاربند بھی ہیں تاہم ان میں سے کوئی بھی سیاسی قوت کا حامل نہیں ہے۔گزشتہ برس کے عام انتخابات کے بعد سے اس مسئلے کے حل کی امید پیدا ہوئی ہے کیونکہ اب ملک کی مقامی اسمبلیوں میں اقلیتی پارٹیوں کی واضح نمائندگی کے ساتھ ساتھ وفاقی پارلیمنٹ میں بھی ان کے نمائندے محدود تعداد میں موجود ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کی آمد سے قبل بھی حکومتی وفد نے پانچ مسلح گروپوں کے ساتھ امن کے فروغ کے لیے مذاکرات کیے ہیں۔

رپورٹ: شاہد افراز خان

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں