’مہاجرین کےمسائل سے نمٹنےکے لیے یورپی اقدامات مضحکہ خیز ہیں‘
5 اکتوبر 2015ترک صدر نے یہ بات برسلز میں ہونے والی اُن مذاکرات کے موقع پر کہی، جس میں مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی کے موضوع پر تبادلہء خیال کیا جانا تھا۔ تاہم یہ بات چیت روس کی طرف سے ترکی کے فضائی حدود کی خلاف ورزی کے واقع کے سائے میں عمل میں لائی جا رہی ہے۔ ایردوآن پیر کو برسلز کے دورے پر پہنچے۔ ترک صدر یکم نومبر کو ترکی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں شامی پناہ گزینوں کے مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے اس سے سیاسی فائدہ اُٹھانے کی بھی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
ان کی یورپی یونین کے رہنماؤں سے برسلز میں ملاقات کے دوران ترکی میں نئی مہاجر بستیوں کی تعمیر اور پہلے سے جاری منصوبوں میں توسیع کے علاوہ سرحدوں کی نگرانی کو سخت کرنے جیسے معاملات بھی زیر بحث آئے۔ ایردوآن نے پڑوسی ملک شام اور عراق سے ترکی آنے والے 2 ملین پناہ گزینوں کی تعداد کا مقابلہ یورپی یونین آنے والے شامی مہاجرین سے کیا۔ اہردوآن نے کہا، ’’جہاں ترکی نے 2.2 ملین مہاجرین کو پناہ دی ہے، وہاں پورے یورپی بلاک نے مجموعی طور پر دو لاکھ پچاس ہزار مہاجرین کو اپنے ہاں جگہ دی ہے۔‘‘
ترکی کے اخبار حریت کے مطابق ابھی ایک روز قبل ترک صدر نے فرانس میں اپنے حامیوں سے کہا تھا، ’’وہ ہم سے کہتے ہیں، اپنے دروازے نہ کھولو، ان مہاجرین کو ہماری طرف آنے نہ دو‘‘۔ ایردوآن کا یہ بیان یورپی رہنماؤں کے لیے تشویش کا باعث ہے جو ترک صدر کو امداد کے عوض اپنے ہاں مزید شامی مہاجرین کو پناہ دینے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُدھر انقرہ حکومت شام کی خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے یورپی یونین کی کوششوں کو ناکام سمجھتے ہوئے یورپی لیڈروں سے مطالبہ کر رہی ہے کہ یا تو وہ اپنے ہاں مزید پناہ گزینوں کو پناہ دیں یا پھر جنگ کے خاتمے کی کوششوں میں براہ راست شامل ہوں اور مداخلت کریں۔
ایردوآن کے تند و تیز لحجے کے باوجود یورپی یونین کے لیڈر پیر کو برسلز میں ہونے والی ملاقات میں کسی شدید رد عمل سے باز ہی رہنا چاہتے ہیں کیونکہ ایردوآن بحیثیت ایک مقبول ترک سیاسی لیڈر یورپی سیاستدانوں کے لیے ایک مشکوک شخصیت بنتے جا رہے ہیں۔
ایردوآن کا بیلجیم کا یہ سرکاری دورہ ایک عرصے سے بار بار ملتوی ہوتا رہا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ترکی کی یورپی یونین میں ممبرشپ کی دیرینہ خواہش اور یورپی لیڈروں کی طرف سے اس بارے میں کسی فیصلے میں پس و پیش رہی ہے۔ یورپی یونین میں شامل ممالک ایردوآن کی سیاسی قوت اور اُن کی بڑھتی ہوئی استبدادیت سے خائف ہیں اور ترکی میں آزادیء صحافت کی صورتحال پر سخطت نکتہ چیں ہیں۔
اُدھر یورپی دفاعی اتحاد نیٹو میں شامل اہم ملک ترکی کی فضائی حدود کی روس کی طرف سے ہونے والی نافرمانی پر نیٹو کے سکریٹری جنرل ژینس اشٹولن برگ نے روس کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’ناقابل قبول‘ اقدام قرار دیا اور پیر کو انہوں نے نیٹو کے اراکین کا ایک اجلاس طلب کر لیا۔
مہاجرین کے بحران کے تناظر میں ترکی ایک انتہائی اہم ملک ہے۔ ایک جانب ترکی تنازعے کے شکار ملک شام کا پڑوسی ہے تو دوسری جانب اس کی سرحدیں یورپی یونین کے رکن ممالک بلغاریہ اور یونان سے ملتی ہیں۔