1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کے لیے موبائل فون، سہولت ہے یا بوجھ؟

عاطف توقیر
9 مارچ 2018

تارکین وطن کے ایک بہت بڑی تعداد اسمارٹ فونز کے نیوی گیشن ایپس کے ذریعے اپنے سفری راستے کی معلومات لیتی ہے، مگر یہ خوف بھی ساتھ ساتھ رہتا ہے کہ اگر ان کی کمیونیکشن کی نگرانی کی گئی، تو وہ پکڑے جا سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2u2Sz
Deutschland Flüchtlinge aus Syrien vor der ZAA in Berlin
تصویر: Getty Images/C. Koall

 ریڈکراس کی ستمبر 2015ء کی ایک مطالعاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ سے یورپ کا رخ کرنے والے قریب تمام مہاجرین اور تارکین وطن کے پاس اسمارٹ فونز موجود تھے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان مہاجرین کو اس بابت فکر کرنے کی کوئی ضرورت ہے کہ اسمارٹ فونز کے استعمال پر ان کی نگرانی کی جا سکتی ہے؟

اٹلی: تارکین وطن کے لیے کون سی جگہیں محفوظ ہیں؟ ایپ بتائے گی

سرمائی اولمپکس ، دو ممالک کے کھلاڑی اسمارٹ فونز سے محروم

اسمارٹ فون

اس وقت آپ یہ مضمون بھی شاید اپنے اسمارٹ فون پر پڑھ رہے ہیں۔ اگر آپ تارک وطن ہیں، تو آپ کا فون شاید آپ کے لیے بے حد ضروری اور قیمتی ہو۔ آپ نے شاید کئی بار اسے استعمال کر کے اپنی منزل کی جانب بڑھنے کے لیے سفری معلومات حاصل کی ہوں، مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس موبائل فون کے ذریعے آپ کی انتہائی خفیہ اور نجی معلومات اور گفت گو میں بھی جھانکا جا سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر مہاجر کے پاس اسمارٹ فون کی موجودگی لازم نہیں، تاہم ان تارکین وطن کی قریب نصف تعداد ضرور اس جدید آلے کا استعمال کرتی ہے۔ زیادہ تر افراد سوشل میڈیا اور پیغام رسانی کے ایپس کے لیے اسمارٹ فونز کی مدد لیتے ہیں۔ بہت سے تارکین وطن فیس بک، ٹوئٹر، وٹس ایپ، اسکائپ، وائبر، جی پی ایس اور گوگل میپس کا استعمال کرتے ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ تارکین وطن اسمارٹ فونز پر ترجموں، راستوں کی نشان دہی، سرحدی چوکیوں، مہاجرت پر آنے والے اخراجات، سیاسی پناہ کے لیے بہتر ممالک، پولیس سے بچنے کے طریقوں، انسانوں کے اسمگلروں تک رسائی، سفر کی تصاویر حتی کہ یورپ میں مہاجرت اور دیگر پالیسیوں تک کی معلومات ان اسمارٹ فونز کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔

سن 2015ء میں عربی زبان کے ایک فیس بک پیج ’یورپ تک اسمگلنگ‘ کے قریب چوبیس ہزار فالورز تھے۔ ایسے ہی ایک اور فیس بک صفحے، ’’یورپ تک مہاجرت‘ کے بھی قریب 39 ہزار ارکان تھے۔ ہجرت کے بعد بھی روزمرہ کی زندگی میں اسمارٹ فون کی اہمیت کلیدی رہتی ہے۔

تاہم مہاجرین کی مدد کرنے والی تنظمیوں کے مطابق اس حوالے سے متعدد خطرات سے بھی تارکین وطن کو واقف ہونا چاہیے۔ ایک تو یہ کہ تمام ایپس برابر نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر وٹس ایپ میں کی جانے والی گفت گو فقط وہی افراد پڑھ سکتے ہیں، جن کے درمیان یہ گفت گو ہو رہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تارکین وطن میں یہ ایپ مقبول بھی ہے اور اسے محفوظ بھی سمجھا جاتا ہے۔ فیس بک میسنجر بھی پیغامات کے لیے اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹڈ ڈیٹا کی پیش کش کرتا ہے، تاہم یہ ڈیفالٹ نہیں ہے اور اسے ایکٹیویٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے فیس بک میسنجر پر ہونے والی گفت گو کی نگرانی قدرے آسان ہے۔

ماہرین کا تاہم کہنا ہے کہ اینڈ ٹو اینڈ اینکرپشن بھی آپ کی گفت کے پرائیویٹ ہونے کی ضمانت نہیں، کیوں کہ اگر آپ نے اپنی گفت گو کلاؤڈ پر بیک اپ کی یا آپ کا فون پکڑا گیا، تو آپ کی تمام تر معلومات کسی اور کے پاس جا سکتی ہے۔

برطانیہ کی دی اوپن یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر ماری گِلسپی کا کہنا ہے کہ سفر کے دوران تارکین وطن کے فون داعش یا کسی دوسری دہشت گرد تنظیم کے ارکان، سرحدی محافظوں یا پولیس اہلکاروں کے ہاتھ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے اور اس کا انجام تباہ کن ہو سکتا ہے۔ ’’تصاویر اور دیگر انتہائی نجی اور اہم معلومات کسی اور کے پاس چلی جائے، تو کسی تارک وطن کو انتہائی مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔‘‘

مہاجرین اور تارکین وطن کے موضوع پر معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ انفومائیگرنٹس ڈاٹ نیٹ کے مطابق بہت سے تارکین وطن اسی خیال کے ساتھ صرف اینکرپٹڈ ایپ کا استعمال کرتے ہیں، سوشل میڈیا گروپوں میں شامل ہونے سے بچتے ہیں اور اپنی سم تبدیل کرتے رہتے ہیں۔