1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلم خواتین کے نقاب کا احترام کریں، فرانسیسی اداکارہ

صائمہ حیدر10 ستمبر 2016

فرانسیسی اداکارہ جولیٹ بینوش نے یورپی باشندوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مہاجرین کے حوالے سے اپنے ذہنوں میں ابھرنے والے خوف کو ختم کریں اور مسلمان خواتین کے نقاب لینے کے معاملے پر ان کی آزادی اظہارکا احترام کریں۔

https://p.dw.com/p/1JziZ
Bildergalerie Frankreich Film Juliette Binoche mit Oscar
بینوش اکثر و بیشتر ہی خواتین کے حقوق اور آزادی رائے کے حق میں بات کرتی رہی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

ہنگری میں ایک فلم فیسٹیول کے دوران جہاں وہ ایک ایوارڈ وصول کرنے پہنچی ہیں، بینوش نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حقوق نسواں کی تحریک نے مہاجرین کے بحران میں، جہاں خوف مزید تنازعات کو جنم دیتا ہے، ہمدردانہ سلوک کے لیے آواز بلند کی ہے۔ بینوش نے کہا کہ اگر خواتین اپنے لیے نقاب پہننے کا انتخاب کرتی ہیں تو اس انتخاب میں انہیں آزاد ہونا چاہیے۔

بینوش نے اپنی ایک یاد داشت سناتے ہوئے کہا، ’’ مجھے یاد ہے کہ میں ایک بار ایک بوسنین خاتون ڈائریکٹر سے ملنے بوسنیا گئی۔ اس نے اپنے چہرے کو نقاب سے ڈھک رکھا تھا۔ میں نے اس سے سوال کیا کہ وہ نقاب کیوں کرتی ہیں جبکہ ان کا شوہر اور بچے ایسا نہیں چاہتے۔‘‘ لیکن ان کے نزدیک چہرے کو نقاب سے ڈھکنا ’آزادی جیسا‘ تھا۔

فرانسیسی اداکارہ کا کہنا تھا کہ یورپی باشندوں کو اس قسم کے خدشات سے آزاد ہونا چاہیے اور مصیبت میں یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ بینوش نے مزید کہا، ’’ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان پناہ گزینوں کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کریں اور ان کی مدد کریں۔‘‘

Burka Verbot Frankreich Frauen
بینوش کا کہنا ہے کہ اگر خواتین اپنے لیے نقاب پہننے کا انتخاب کرتی ہیں تو اس انتخاب میں انہیں آزاد ہونا چاہیےتصویر: CLAUDE PARIS/AP/dapd

بینوش عالمی شہرت یافتہ اداکارہ ہیں جنہوں نے’چاکلیٹ‘ اور ’دی انگلش پیشنٹ ‘ جیسی فلموں میں کام کیا اور ’دی انگلش پیشنٹ ‘ میں عمدہ کردار ادا کرنے پر انہیں سن انیس سوچھیانوے میں اکیڈمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ بینوش اکثر و بیشتر ہی خواتین کے حقوق اور آزادی رائے کے حق میں بات کرتی رہی ہیں۔

یاد رہے کہ یورپ ایک عرصے سے مہاجرین کے بحران سے نبرد آزما ہے۔ جنگ اور غربت کے باعث مشرق وسطی اور افریقہ سے دس لاکھ سے زائد تارکین وطن نے یورپ کا رخ کیا ہے، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ پناہ گزینوں کی وسیع پیمانے پر یورپ آمد نے یہاں پہلے سے موجود مسلمانوں کے یورپی معاشرت میں انضمام کے مسائل کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔