1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کا مسئلہ، یورپی یونین مشترکہ لائحہ عمل کی جانب

عدنان اسحاق28 اگست 2015

یورپی یونین میں مہاجرین کا سیلاب اپنی ریکارڈ حدوں کو چھو رہا ہے۔ اس مسئلے کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرانے اور الزام تراشیوں کے بعد اب ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ یورپی یونین ایک مشترکہ لائحہ عمل کی جانب بڑھ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GNKd
تصویر: Reuters/M. Djurica

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یورپی یونین کے رہنماؤں نے اس ہفتے پہلی مرتبہ تسیلم کیا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں پر انسانی بحران کی صورتحال پر قابو پانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ تاہم اس دوران یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ مہاجرین کی آمد سے پیدا ہونے والے مسائل سے آئندہ بہتر انداز میں نمٹا جائے گا۔ مہاجرت کی بین الاقوامی تنظیم کے ترجمان لیونارڈ ڈوئلے کے مطابق، ’’ ایک حل تک پہنچنے کے لیے ایک بحران کی ضرورت پڑی اور اس سلسلے میں یورپی یونین کا منصوبہ آخر کار شروع ہونے کو ہے‘‘۔

اس مقصد کے لیے نئی پناہ گاہیں تعمیر کی جا رہی ہیں اور بہتر انتظامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ ڈوئلے کے بقول ایک طویل عرصے تک یورپی یونین کے اٹھائیس ممالک مہاجرین کے معاملے میں متفق دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ لیکن اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ لوگ ایک بہتر اور قابل عمل طریقہ کار کی جانب بڑھ رہے ہیں،’’ کم از کم اس کی کوشش تو کی جا رہی ہے‘‘۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ابھی حال ہی میں کہا تھا کہ یہ ان کے دور حکومت کا اب تک کا سب سے شدید ترین بحران ہے۔ میرکل کے مطابق، ’’ دنیا ہماری جانب نگاہیں جمائی بیٹھی ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ بطور ایک امیر براعظم کے یورپ اس مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘‘۔

Ungarn Flüchtlinge am Grenzzaun zu Serbien
تصویر: Reuters/L. Balogh

چند ماہ قبل بحیرہ روم میں کشتی کے حادثے میں آٹھ سو زائد تارکین وطن کی ہلاکت نے حالات کو یکسر تبدیل کر دیا تھا۔ بحیرہ روم میں نیوی کی گشت پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تارکین وطن کو بچانے کے لیے مزید اقدامات کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے چند ہفتوں کے دوران ہی یورپی سطح پر ’’مائیگریشن ایجنڈا‘‘ تیار کیا گیا اور تمام یورپی رہنما جون میں اس منصوبے کی توثیق بھی کر چکے ہیں۔

گزشتہ برس تقریباً ساڑھے چھ لاکھ افراد نے یورپی یونین میں سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی تاہم اندازہ ہے کہ اس سال یہ تعداد آٹھ لاکھ سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ اس دوران یورپی یونین میں ایسے ممالک کی فہرست تیار کرنے بھی غور ہو رہا ہے، جو محفوظ ہیں اور جن کے شہریوں کو اس براعظم میں سیاسی پناہ نہیں دی جائے گی۔