1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین میں کثرت ازدواج کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، جرمنی

عاطف بلوچ14 جون 2016

برلن حکومت مہاجرین کو کثرت ازدواج کی اجازت نہیں دے گی۔ جرمن وزیر داخلہ کے مطابق مہاجرین کو اپنی ثقافتوں اور مذہبی عقائد کو ملکی قانون پر حاوی نہیں کرنے دیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1J6TJ
Irak Falludscha Flüchtlinge vor Kämpfen
برلن حکومت مہاجرین کو کثرت ازدواج کی اجازت نہیں دے گیتصویر: Reuters/T. Al-Sudani

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے برلن حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمن آنے والے مہاجرین کو جرمن قانون کے دائرہ کار میں رہنا ہو گا اور اس ملک میں آنے والا کوئی بھی شخص ایک وقت میں ایک سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتا ہے۔

جرمن وزیر انصاف ہائیکو ماس نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں کہا کہ اس ملک میں آنے والے کسی بھی شخص کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنے مذہبی عقائد اور ثقافتی روایات کو جرمن قانون پر فوقیت دے۔

متعدد یورپی ممالک کی طرح جرمنی میں بھی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پہنچی ہے، جن میں سے زیادہ تر مسلمان ہیں۔ شمالی افریقی ممالک لیبیا یا دیگر مسلم ممالک شام، عراق، افغانستان اور پاکستان سے مہاجرت اختیار کر کے یورپ پہنچنے والے لاکھوں افراد کو یورپ میں آباد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

تاہم مسلم اور مغربی ممالک کے مابین سماجی اور ثقافتی فرق کے حوالے سے کثرت ازدواج کا معاملہ یورپ میں گرما گرم بحث کا موجب بن چکا ہے۔

اسی تناظر میں ہائیکو ماس نے منگل کے دن جرمن روزنامے بلڈ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’کثرت ازدواج کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اسلام کے مطابق ایک مرد ایک ہی وقت میں چار شادیاں کر سکتا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ جرمنی میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے حوالے سے بنائے گئے قانون کافی سخت ہیں لیکن کچھ خاص کیسوں میں ایسے مہاجرین کی ایک سے زیادہ شادیوں کو قبول کر لیا جاتا ہے اگر یہ شادیاں جرمنی میں نہ کی گئی ہوں۔ مثال کے طور پر جرمنی میں اگر کوئی ایسا شخص وفات پا جائے، جس نے دو شادیاں کی ہوئی تھیں تو اس متوفی کی جائیداد کو دونوں بیویوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔

تاہم جرمن وزیر داخلہ نے اس قانون کے حوالے سے کسی بھی ابہام کو دور کرتے ہوئے کہا، ’’ہر کسی کو جرمن قانون کا پابند ہونا ہوگا۔ بے شک وہ یہاں پیدا ہوا ہو یا کچھ عرصہ قبل ہی جرمنی پہنچا ہو۔ قانون کا اطلاق سبھی پر یکساں طریقے سے ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کم عمری (بچپن) کی شادیاں بھی غیر قانونی ہیں کیونکہ امکان ہے کہ بچوں سے زبردستی شادی کی گئی ہو۔

Deutschland Frauen und Männer aus Afghanistan und Pakistan in einer Flüchtlingsunterkunft des Landes Hessen in Limburg
کسی بھی شخص کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنے مذہبی عقائد اور ثقافتی روایات کو جرمن قانون پر فوقیت دے، جرمن وزیر انصافتصویر: picture alliance/dpa/B. Roessler

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے اعدادوشمار کے مطابق افغانستان میں ہونے والی مجموعی شادیوں میں سے چالیس فیصد میں شادی شدہ افراد کی عمر اٹھارہ برس سے کم ہے، یعنی ہر آٹھ میں سے ایک شخص کی شادی نو عمری میں ہی کر دی جاتی ہے۔

جرمن ریاست باویریا کے مطابق وہاں پہنچنے والے مہاجرین میں سے 161 کیس ایسے ہیں، جن میں شادی شدہ افراد کی عمر سولہ سال سے بھی کم ہے۔ اسی طرح 550 کیسوں میں شادی شدہ افراد کی عمر اٹھارہ برس سے کم ہے۔ باویریا کی ہمسایہ ریاست باڈن ورٹمبرگ مہاجرین میں بچوں کی شادیوں کے ایک سو سترہ کیس نوٹ کیے گئے ہیں۔

جرمن وزارت انصاف کی ترجمان نے پیر کے دن ہی کہا تھا کہ جرمنی پہنچنے والے مہاجرین میں کثرت ازدواج یا بچوں کی شادیوں کے حوالے سے قومی سطح پر مصدقہ اعدادوشمار ابھی تک دستیاب نہیں ہیں لیکن جرمنی میں بچوں کی شادیاں ناقابل قبول ہیں اور یہ تسلیم بھی نہیں کی جائیں گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید