1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين کی يورپ آمد، غير متوقع کاروبار بھی عروج پر

عاصم سليم4 اکتوبر 2015

سمندری راستوں سے يورپ پہنچنے والے ہزاروں مہاجرين کے ليے يونانی جزيرے ليسبوز کے ساحل روشن مستقبل کی اميد لیے ہوئے ہے۔ تاہم ان لاتعداد مہاجرين کی لگاتار آمد سے حکام کو کئی غير متوقع مسائل کا سامنا بھی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GiNk
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis

ليسبوز کے شمالی ساحل پر واقع اسکالا سيکامينياس بيچ مہاجرين کی آمد کے لحاظ سے کافی اہم مقام ہے۔ اس ساحل پر شہری انتظاميہ کے ملازمين روزانہ ہزاروں لائف جيکٹس اور ہوا والی چھوٹی کشتياں اٹھاتے اٹھاتے تھک چکے ہيں۔ ويسٹ منجمنٹ کے نگران نائب ميئر يورگوس کاٹسانوس کہتے ہيں، ’’ہمارا کام بمشکل ہی ختم ہوا ہے کہ کام دوبارہ شروع کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔‘‘ جزيرے پر يوميہ ہزاروں مہاجرين کی آمد کے بعد وہاں کشتيوں اور لائف جيکٹس کا انبار لگ جاتا ہے، جس کی صفائی کے ليے شہری انتظاميہ نے بارہ اضافی ملازمين کی خدمات حاصل کر رکھی ہيں۔

ساحل سے اٹھائی جانے والی ان پلاسٹک کی کشتيوں اور لائف جيکٹس کو فی الحال ليسبوز کے شمالی حصے کے ايک کوڑے خانے تک پہنچايا جا رہا ہے۔ جب تک حکام اس بات کا تعين نہيں کر ليتے کہ اس سامان کا کرنا کيا ہے، اس وقت تک ان لائف جيکٹس کو اسی مقام پر ذخيرہ کيا جا رہا ہے۔ يورگوس کاٹسانوس کا کہنا ہے کہ ايسی چيزوں کا واحد حل يہی ہے کہ انہيں ری سائيکل کيا جائے۔ ان کے بقول پلاسٹک کو پانی کے ٹينک وغيرہ جيسی چيزيں بنانے کے ليے استعمال ميں لايا جا سکتا ہے۔

Kos Küste Strand Ankunft Flüchtlinge Touristen
تصویر: Reuters/Y. Behrakis

مہاجرين کی آمد کے منتظر رضاکار اور رپورٹروں کے ليے لائف جيکٹ کسی ’ٹرافی‘ سے کم نہيں۔ کاٹسانوس بتاتے ہيں کہ کچھ لوگوں نے تو ’انسان دوست بنيادوں پر کام‘ کی وجہ بيان کرتے ہوئے ساحل پر ملنے والی لائف جيکٹوں کو انٹرنيٹ پر بولی کے ليے بھی پيش کر رکھا ہے۔

ويسٹ منجمنٹ کے نگران نائب ميئر کا مزيد کہنا ہے کہ يہ لائف جيکٹس ترکی يا چين ميں بنائی جاتی ہيں اور کافی ناقص ہوتی ہيں اور ان سے جان بچنا مشکل ہے۔ بائيس سالہ افغان مہاجر سجاد کا کہنا ہے کہ انہوں نے ترکی سے سات يورو کی ايک لائف جيکٹ خريدی تھی اور اپنے بقيہ ساتھيوں کے ہمراہ ليسبوز پر قدم رکھتے ہی لائف جيکٹ پھينک دی۔ سجاد شکر گزار ہيں کہ انہيں لائف جيکٹ استعمال کرنے کی ضرورت نہيں پڑی۔

اقوام متحدہ کی ايجنسی برائے مہاجرين UNHCR کے اعداد و شمار کے مطابق سال رواں ميں اب تک تقريباً نصف ملين افراد بحيرہ روم کے ذريعے يورپ پہنچ چکے ہيں، جن ميں سے قريب تین لاکھ دس ہزار يونان کے راستے آئے۔ اس دوران لاپتہ يا ہلاک ہو جانے والوں کی تعداد لگ بھگ تين ہزار ہے۔

يونانی ساحلوں پر مہاجرين کی آمد سے منسلک کئی غير متوقع کاروبار بھی جاری ہيں۔ انسانی اسمگلرز شام سے يونان تک پہنچانے کے ليے مہاجرين سے قريب دو ہزار ڈالر تک کا معاوضہ ليتے ہيں اور اکثر اوقات ان کی کشتياں کافی ناقص ہوتی ہيں، جس کے سبب رونماہونے والے حادثات میں کئی افراد ہلاک بھی ہو جاتے ہيں۔

ساحلوں پر سے ملنے والی لائف جيکٹوں اور کشتيوں کے علاوہ کشتيوں کے انجنوں کی بھی کافی مانگ ہے۔ ليسبوز کے قريبی جزيرے ليروز سے حال ہی ميں مقامی پوليس نے چار اسمگلروں کو حراست ميں ليا، جو مہاجرين کی کشتيوں کے 35 انجن فروخت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ايک مقامی لائف گارڈ ميشالس ڈيمو کہتے ہيں قريب ہر چير کی بليک مارکيٹ يا غير قانونی فروخت کی مارکيٹ ہے۔ ان کے بقول حکام نے ايسے منفی افعال سے منسلک چند افراد کو حراست ميں ليا ہے تاہم ان دنوں ديگر معاملات پر توجہ مرکوز کرنا ان کی اولین ترجیح ہے۔