1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين بيٹيوں کی کم عمری ميں شاديوں پر مجبور

عاصم سلیم
26 فروری 2018

پڑوسی ملکوں ميں پناہ ليے ہوئے شامی مہاجرين کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے، جس سبب اب يہ مہاجرين اپنی ضروريات پوری کرنے اور مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے ليے منفی راستے اختيار کر رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/2tL1o
Syrien Flüchtlinge Frauen mit Kind Symbolbild
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Xinhua/M. Abu Ghosh

بچوں کے ليے اقوام متحدہ کی ذيلی ايجنسی يونيسف کی جانب سے کہا گيا ہے کہ اردن ميں رہائش پذير شامی مہاجر بچوں کی قريب پچاسی فيصد تعداد غربت ميں گزر بسر کر رہی ہے۔ اڑتيس فيصد بچے تعليم کی سہولت سے محروم ہيں جبکہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی نصف تعداد صحت کی بنيادی سہوليات تک سے محروم ہيں۔

شام ميں مارچ سن 2011 ميں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے اب تک 5.5 ملين شامی باشندے سياسی پناہ کے ليے ديگر ملکوں کی طرف جا چکے ہيں۔ اردن ميں قيام پذير رجسٹرڈ شامی مہاجرين کی تعداد لگ بھگ 660,000 ہے۔ يونيسف نے اردن کے مہاجر کيمپوں ميں بچوں کی صورتحال کے حوالے سے ايک ہزار سے زائد خاندانوں سے ان کی رائے معلوم کی۔ اردن ميں يونيسف کے نمائندے رابرٹ جينکنز نے بتايا کہ وہاں ہر چھ ماہ بعد بچوں کی صورتحال پر رپورٹ ترتيب دی جاتی ہے اور اتوار پچيس فروری کو جاری ہونے والی اس سلسلے کی چھٹی رپورٹ ہے۔

رابرٹ جينکنز کے بقول اس دوران شامی مہاجر بچوں کی مشکلات ميں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کو بتايا کہ اس مطالعے کا واضح نتيجہ يہی ہے کہ اردن ميں پناہ لينے والے شامی خاندانوں کی صورتحال بگڑتی جا رہی ہے۔ جينکنز نے مہاجرين کے ليے مالی امداد فراہم کرنے والے ملکوں پر زور ديا کہ اس وقت اضافی رقوم کی ضرورت ہے۔ اردن ميں يونيسف کو مہاجر بچوں کی ديکھ بھال کے ليے درکار رقوم ميں 145.7 ملين ڈالر کی کمی کا سامنا ہے۔

شامی بچوں کے حوالے کی گئی اس اسٹڈی کے مطابق اردن ميں مقيم چورانوے فيصد شامی مہاجر بچوں کو پانچ بنيادی سہوليات ميں سے کم از کم دو ميسر نہيں۔ سب سے زيادہ قلت طبی سہوليات اور چھوٹے بچوں کے ليے اسکولوں کی ہے۔ علاوہ ازيں پينتاليس فيصد بچوں کو صحت سے متعلق سہوليات ميسر نہيں۔ اسکول جانے والی عمر کے اڑتيس فيصد بچے اسکولوں ميں رجسٹرڈ نہيں جبکہ ہر دس ميں سے چار بچوں کو خوراک کی قلت تک کا سامنا ہے۔

اردن ميں ان مہاجر بچوں کے تحفظ کو  يقينی بنانے پر مامور يونيسف کی ماہا ہومسی نے بتايا کہ کئی سال تک اپنے وطن سے دور رہنے اور اپنے اپنے سرمائے ختم کرنے کے بعد مہاجرين اب ضروريات پوری کرنے کے ليے منفی راستے اختيار کر رہے ہيں۔ ان عوامل ميں لڑکيوں کی اٹھارہ برس سے کم عمری ميں شادی، کم عمر لڑکوں کو ملازمت پر بھيجنا وغيرہ شامل ہيں۔

ايک ملين سے زائد شامی بچے اسکول جانے سے محروم