1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجر بچوں کے تلخ تجربات اور اذیت ناک یادیں

امتیاز احمد5 نومبر 2015

مہاجرین کے بچے انتہائی خوفناک تجربات سے گزرے ہیں۔ وہ اپنی تکلیف کے بارے میں کسی کو بتاتے بھی نہیں اور اپنے مصائب کے ساتھ اکثر تنہا کھڑے رہتے ہیں۔ محقیقین اب ایسے بچوں کی مدد کی کوشش کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1H0bW
Slowenien Kroatien Flüchtlinge bei Rigonce
تصویر: picture-alliance/AA/S. Mayic

فرح کی عمر ابھی بمشکل دس برس ہے اور وہ شام سے اپنے خاندان کے ہمراہ فرار ہو کر جرمنی پہنچی ہے۔ اپنے تلخ تجربات کے بارے میں اس کا کہنا تھا، ’’کشتی پر سوار ہوئے تو میں انتہائی خوفزدہ تھی۔ جب ہم پانی میں گرے تو اس وقت میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو اپنی بانہوں میں اٹھا رکھا تھا اور میں زارو قطار رو رہی تھی۔ میں نے اپنے اللہ سے دعا کی کہ میں جنت میں جاؤں، میں نے سوچا میں مرنے والی ہوں۔‘‘

بارہ سالہ نمیر کا تعلق ایک مسیحی گھرانے سے ہے، جو شامی دارالحکومت دمشق سے فرار ہو کر آیا ہے۔ اس کا کہنا تھا، ’’فرار کے دوران ہمیں پانچ ماہ تک بلغاریہ کے مہاجرین کیمپ میں انتظار کرنا پڑا، جو انتہائی خوفناک تجربہ تھا۔ وہاں ہمیں گارڈز کی طرف سے مارا پیٹا گیا۔‘‘ اس کا مزید کہنا تھا کہ جرمنی پہنچنے کے لیے انہیں تاریک جنگل میں سے بھی گزرنا پڑا، ’’راستے میں میرے جوتے تک گم ہو گئے، میں کئی کلومیٹر ننگے پاؤں چلتا رہا۔ کانٹوں اور لکڑیوں کی وجہ سے میرے پاؤں سے خون بہنا شروع ہو گیا تھا۔ میرے والد کو مجھے اور میری بہن کو اپنے کندھوں پر اٹھانا پڑا۔ ہم بھوکے بھی تھے اور پیاسے بھی۔‘‘

ستّرہ سالہ ندال کا کہنا تھا کہ راستے میں اس کا چھوٹا بھائی ان سے جدا ہو گیا تھا، ’’ہمیں ولید تین دن بعد دوبارہ ملا اور وہ خطرناک حد تک خوف کا شکار ہو چکا تھا۔‘‘ اس نے ابھی تک اس واقعے کے بارے کبھی بات نہیں کی۔ جب آخر کار ہمیں وہ تین دن بعد ملا تو وہ ایک ہی وقت میں رو بھی رہا تھا اور ہنس بھی رہا تھا۔ ندال کا کہنا تھا، ’’اگر یہ سب کچھ میرے ساتھ ہوا ہوتا تو خیر کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن وہ تو ایک بچہ ہے۔‘‘

مہاجرین کے کیمپوں میں فرح، ولید اور نمیر جیسے بچوں کی سینکڑوں کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ یہ ایسے تجربات ہیں، جن سے ہر والدین اپنے بچوں کو بچانا چاہتے ہیں۔ لیکن والدین خود مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ایسے خطرات مول لے رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کے مطابق جرمنی پہنچنے والے ایک تہائی پناہ گزینوں کی تعداد بچوں اور نوعمروں پر مشتمل ہے۔

ماہر نفسیات آندریاس ماٹن شلاگر کا کہنا ہے کہ بچوں کی کہانیاں انتہائی اندوہ ناک ہیں۔ آندریاس ماٹن شلاگر اور ان کی ٹیم اولمر پروجیکٹ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا مقصد ایسے تجربات سے گزرنے والے بچوں اور نوجوانوں کا علاج کرنا ہے تاکہ ان کا نفسیاتی دباؤ کم ہو سکے۔

جرمن شہر میونخ میں قائم بچوں کے مرکز سے منسلک امراض اطفال کے شعبےکے ڈائریکٹر فولکر مال کا کہنا ہے کہ یہ بچے اور نوجوان اپنے ملکوں میں جنگ کے اذیت دیکھ چکے ہیں اور کئی کئی ماہ سے یورپ کے راستے پر ہیں، ’’مہاجرین کیمپوں میں بھی صورتحال آئیڈیل نہیں ہے جبکہ تعصب اور تنہائی بھی ان کے نفسیاتی بوجھ میں اضافہ کر رہی ہے۔‘‘

ماہر نفسیات آندریاس ماٹن شلاگر کا کہنا تھا کہ ان بچوں اور نوجوانوں میں اعتماد پیدا کرنا ہوگا تاکہ ان کا نفسیاتی دباؤ کم ہو سکے۔ تاہم آندریاس ماٹن شلاگر اور ان کی ٹیم کی طرف سے ابھی صرف آغاز کیا گیا ہے۔