1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ميونخ سکيورٹی کانفرنس اور ’سفارت کاری کے دور کا خاتمہ‘

عاصم سلیم Matthias von Heim
19 فروری 2018

ميونخ ميں ہونے والی سالانہ سکيورٹی کانفرنس عموماً تازہ ترین صورتحال کی عکاسی کرتی ہے تاہم اس سال يہ مخالفين کی ايک دوسرے پر الزام تراشی پر مشتمل رہی۔ ڈی ڈبليو کے ماتھياس فان ہائم کے مطابق حل ذرا کم ہی دکھائی ديے۔

https://p.dw.com/p/2sw95
München MSC 2018 | Außenminister Sigmar Gabriel
تصویر: Getty Images/AFP/T. Kienzle

ڈوئچے ويلے کے صحافی ماتھياس فان ہائم اپنے تجزيے ميں لکھتے ہيں کہ ماضی ميں چند ايسے سال بھی گزرے ہيں، جب ميونخ سکيورٹی کانفرنس ايک دوسرے کو سمجھنے اور اميد کا پيغام ديتی رہی تاہم اس سال اس کانفرنس ميں حقيقی حل کم اور اکثريتی طور پر ايک دوسرے پر انگلياں اٹھانے کا سلسلہ جاری رہا۔ کانفرنس ميں عالمی سطح پر درپيش بيشتر مسائل کی نشاندہی کی گئی اور ان پر تجزيے جاری رہے۔ ليکن ايسا معلوم ہوتا ہے کہ سفارت کاری کا دور اب ختم ہو چکا ہے۔

نوبت يہ آ گئی ہے کہ ميزبان کی حيثيت سے عام طور پر مثبت پہلوؤں کی بات کرنے والے جرمن سفارت اور کانفرنس کے صدر وولف گانگ ايشنگر بھی يہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ شرکاء کو مسائل پر کافی تاہم ان کے حل کے بارے ميں ضرورت سے بہت کم سننے کو ملا۔ تين روزہ کانفرنس کا پہلا دن، يعنی جمعہ، ترکی ميں ايک عرصے سے قيد جرمن صحافی ڈينيز يوچيل کی رہائی کی خبروں کے سائے تلے گزرا۔ آئندہ روز اس بات پر بحث ہوتی رہی کہ جرمن اور ترک سياست دان اپنے اپنے موقف پرکس طرح ڈٹے ہوئے ہيں۔ جرمنی کی ماحول دوست گرين پارٹی کے ترک نژاد سابق سربراہ چَيم اوزديمير کو اس ہوٹل میں ٹھہرایا گیا، جہاں ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم کا سرکاری عملہ بھی موجود تھا اور چوں کہ يلدرم کے محافظ اوزديمير کو دہشت گرد قرار ديتے ہيں، جرمن حکام کو اوزديمير کو سکيورٹی فراہم کرنی پڑی۔ کانفرنس کا تيسرا اور آخری روز اسرائيلی وزير اعظم بينجمن نيتن ياہو کے دھواں دار بيان اور پھر ايرانی وزير خارجہ محمد جواد ظريف کے رد عمل کی نذر ہو گیا۔

کانفرنس ميں مغربی ملکوں کے مابين کشيدہ تعلقات بھی نماياں رہے۔ يوکرائنی صدر پيٹرو پوروشينکو نے اپنی تقرير ميں بس يہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ يورپ کو درپيش تمام مسائل کا ذمہ دار روس ہے۔ انہوں نے ماسکو پر دباؤ اور يوکرائن کی مغربی دفاعی اتحاد نيٹو اور يورپی يونين ميں جلد از جلد شموليت کی خواہش ظاہر کی۔ اور اس کے رد عمل ميں روسی وزير خارجہ سيرگئی لاوروف نے يورپ پر ’نازی دور‘ ميں واپسی کا الزام عائد کيا۔ انہوں نے امريکی اليکشن ميں روسی مداخلت کے حوالے سے گردش کرنے والی خبروں کو بھی رد کيا اور بقيہ وقت يہ سمجھانے ميں گزارا کہ اگر امريکا اپنے جوہری اثاثوں کو وسعت ديتا ہے، تو روس کے پاس بھی ايسا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہيں بچے گا۔

کانفرنس ميں تيس يا اس سے زائد مباحثے جبکہ ايک ہزار سے زائد دوطرفہ مذاکرات ہوئے۔