1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ميانمار کا ايوارڈ يافتہ بلاگر، رہائی اور مستقبل کے ارادے

29 فروری 2012

ماضی میں ميانمار کے فوجی حکمرانوں اور سياسی نظام کے خلاف اپنے بلاگز کے ذريعے آواز اٹھانے والے بلاگر فون لٹ نے جنوری کے آخر میں سیاسی قيد سے رہائی کے بعد اپنی بلاگنگ مصروفیات دوبارہ شروع کر دی ہیں۔

https://p.dw.com/p/14BuM
تصویر: AP

ميانمار میں نئی حکومت نے ملک میں زیادہ جمہوریت کی طرف اپنے فیصلوں کو آگے بڑھاتے ہوئے ابھی چند ہفتے قبل ہی فوجی حکمرانوں کے دور میں قید کی سزا پانے والے نے فون لٹ نامی اس بلاگر کو ينگون شہر کی ايک جیل سے رہا کيا تھا۔ اپنی رہائی کے بعد یہ 32 سالہ بلاگر اب ايک مرتبہ پھر بلا خوف و خطر انٹرنيٹ پر بلاگز لکھنے ميں مصروف ہو گیا ہے۔ فون لٹ کا کہنا ہے کہ ميانمار ميں اصلاحات کے تسلسل کے ليے لازمی ہے کہ عام شہری اپنی سوچ اور خيالات کا اظہار کرتے رہیں۔

اس نے اس حوالے سے حکومتی رويوں ميں تبديلی کو تسليم کرتے ہوئے کہا، ’اب حکومت لوگوں کی آواز سن رہی ہے‘۔ فون لٹ نے خبر رساں ادارے اے ايف پی کو بتايا کہ کئی ايسی ويب سائٹس، جن پر گزشتہ دور حکومت ميں پابندیاں عائد تھیں یا جن تک صارفین کی رسائی روک دی گئی تھی، اب میانمار کے عوام کی پہنچ میں ہیں۔

نے فون لٹ نے اپنے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ میانمار میں حکومت کو اب ہر قیمت پر عام شہریوں کو اور بھی زیادہ اظہار رائے کی آزادی دینا ہو گی تاکہ لوگوں کا ملک میں تبدیلیوں پر اعتماد بڑھے اور وہ بلا جھجھک وہ باتیں کہہ یا لکھ بھی سکیں جو وہ محسوس کرتے ہیں۔

کئی سال سياسی قيد میں گزارنے والا فون لٹ اپنی رہائی کے بعد ميانمار کے ديہی علاقوں ميں انفارميشن ٹيکنالوجی کی تعليم عام کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی ایک ایسی کتاب بھی شائع کرنے کا خواہش مند ہے جو اس کی ایسی کہانیوں، خطوط، مضامین اور نظموں پر مبنی ہوگی جو اس بلاگر نے ينگون کی ایک جیل میں قید کاٹتے ہوئے لکھی تھیں۔

البتہ نے فون لٹ کے ليے سب سے اہم بات يہ ہے کہ اس کے وطن ميں انٹرنيٹ کے حوالے سے مروجہ قوانين ميں بڑی تراميم کی جائیں۔ میانمار میں انٹرنیٹ کے استعمال سے متعلق قانون ’اليکٹرانک ايکٹ‘ کہلاتا ہے اور بہت سے غیر جانبدار بين الاقوامی ادارے اس قانون کو انتہائی سخت قرار دیتے ہیں۔

نے فون لٹ کو سن 2007 ميں بدھ راہبوں کی جانب سے شروع کردہ حکومت مخالف مظاہروں میں شمولیت کے باعث گرفتار کيا گيا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے ان مظاہروں ميں شرکت اور پھر ان بلاگز کی وجہ سے حراست ميں ليا گيا تھا جن میں تب وہ حکمران فوجی جرنيلوں اور غیر جمہوری سياسی نظام کے خلاف کھل کر لکھتا تھا۔

فون لٹ کو سزا سنائے جانے کے سلسلے میں اس پر فوجی حکمرانوں میں سے ایک کے مضحکہ خيز کارٹون بنانے اور پھر ايک متنازعہ مزاحيہ لیکن سیاسی پس منظر والے ڈرامے کی سی ڈيز بانٹنے کے الزامات بھی عائد کيے گئے تھے۔

اے ايف پی کے مطابق فون لٹ اپنی حراست سے قبل ملکی سياست پر مضامين اور نظميں لکھا کرتا تھا۔ تب ميانمار ميں انتہائی سخت پریس قوانین نافذ تھے اور انہی پابنديوں کے باعث فون لٹ یہ مضامين اور نظمیں اپنے انٹرنيٹ بلاگ کے ذریعے ہی شائع کرتا تھا۔ اس کے ایسے بلاگز اسی دور میں عوام میں بہت مقبول ہو گئے تھے۔

سن 2007 ميں بدھ راہبوں کی جانب حکومت مخالف مظاہرے کيے گئے
سن 2007 ميں بدھ راہبوں کی جانب حکومت مخالف مظاہرے کيے گئےتصویر: AP

Nay Phone Latt کو ميانمار ميں Saffron Revolution قرار دی جانے والی سماجی تبدیلیوں کا حصہ بننے اور ديگر وجوہات کی بنا پر 2008ء ميں 20 سال قيد کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعد میں یہی سزا کم کر کے بارہ سال کر دی گئی تھی۔ نے فون لٹ کی رہائی کا وقت ابھی نہیں آیا تھا کہ ميانمار ميں سن 2010 ميں منتخب ہونے والی نئی حکومت نے متعدد اصلاحات متعارف کرانا شروع کر دیں۔ اسی دوران نئے حکمرانوں نے اس سال جنوری ميں فون لٹ کی رہائی کا حکم دے ديا تھا۔

ينگون شہر سے تعلق رکھنے والے فون لٹ کو اپنے ملک میں جبر اور ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے کے اعتراف میں امريکی شہر نيويارک ميں PEN/Barbara Goldsmith ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ لیکن تب وہ یہ Freedom to Write Award اس لیے وصول نہیں کر سکا تھا کہ اس وقت وہ ینگون میں قید کاٹ رہا تھا۔

رپورٹ: عاصم سليم

ادارت: مقبول ملک