1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ميانمار ميں نئی آزادياں

26 جنوری 2012

اس وقت ميانمار يا سابق برما ميں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ايک معجزہ معلوم ہوتا ہے۔ 50 سال تک وہاں مسلسل فوج کی حکومت رہی۔ تقريباً ايک سال سے ايک نئی حکومت ہے جو بہت سے کام پچھلی حکومتوں سے بالکل مختلف انداز ميں کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/13qLv
آنگ سان سوچی
آنگ سان سوچیتصویر: dapd

اگرچہ ميانمار ميں پارليمنٹ کی چوتھائی نشستيں اور چوتھائی کليدی عہدے اب بھی فوج ہی کے پاس ہيں ليکن اصلاحات کی خواہش بالکل نماياں ہے۔ پريس کو زيادہ آزادی دے دی گئی ہے۔ ٹريڈيونينوں کو منظم ہونے کی اجازت دی گئی ہے اور سياسی قيدی آزاد کر ديے گئے ہيں۔ جرمنی کے شمالی بندرگاہی شہر ہيمبرگ کے ايشيائی مطالعات کے انسٹيٹيوٹ میں برما کے امور کے ايک ماہر مارکو بيونٹے نے محتاط پر اميدی کے ساتھ کہا:  ’’نئے صدر کے آنے کے بعد سے بہت سی اصلاحات شروع کی جا چکی ہيں ليکن انتظاميہ اور فوج ميں بہت سے مخالفين بھی ہيں جو پرانے، جابرانہ ڈھانچوں کی اصلاح کو بہت مشکل بنا رہے ہيں۔‘‘

آنگ سان سوچی انتخابات کے ليے خود کو رجسٹر کراتے ہوئے
آنگ سان سوچی انتخابات کے ليے خود کو رجسٹر کراتے ہوئےتصویر: dapd

اصلاحات کے عمل ميں ايک بہت اہم قدم نومبر سن 2010 ميں ملک کے جمہوری ضمير کی سی حيثيت رکھنے والی امن کی نوبل انعام يافتہ آنگ سان سو چی کی کئی برسوں کی نظر بندی کا خاتمہ تھا۔ وہ سن 1988 سے ملک ميں جمہوريت کے ليے لڑ رہی ہيں۔ اس وقت انہوں نے قومی ليگ برائے جمہوريت قائم کی تھی اور دھمکيوں کے باوجود انتخابی مہم چلائی تھی۔ جولائی سن 1989 ميں انہيں رياستی سلامتی کو خطرے ميں ڈالنے کے الزام ميں پہلی مرتبہ گھر ميں نظر بند کر ديا گيا تھا۔ ليکن يہ اور اس کے بعد آنے والی تمام سختياں آنگ سان سو چی کو جمہوريت کے لئے کوششيں جاری رکھنے سے روک نہيں سکيں۔ اب انہوں نے اپريل ميں ہونے والے انتخابات کے لنے باضابطہ طور پر اپنا اندراج کرا ديا ہے۔ ان انتخابات ميں 48 پارليمانی نشستوں کے ليے مقابلہ ہو گا کيونکہ سن 2010 ميں ان نشستوں پر منتخب ہونے والے اراکين کو حکومتی عہدے قبول کرنے کی وجہ سے يہ نشستيں خالی کرنا پڑی ہيں۔

برما کا قومی پرچم
برما کا قومی پرچمتصویر: picture-alliance/dpa

غير ملکی رہنما آنگ سان سو چی سے ملنے آتے رہتے ہيں۔ امريکہ، برطانيہ اور فرانس کے وزرائے خارجہ اُن سے ملاقاتيں کر چکے ہيں۔ اب فروری ميں جرمنی کی ترقياتی امداد کے وزير ڈرک نيبل ميانمار جائيں گے تاکہ حاليہ مثبت تبديليوں کے بعد ملک کی صورتحال کا جائزہ لے سکيں۔ آئندہ کی پيش رفت پر ہی ميانمار پر عائد پابنديوں ميں نرمی کے فيصلے کا انحصارہو گا۔ يورپی يونين اپريل کے آخر ميں ميانمار پر عائد پابندياں جاری رکھنے کے بارے ميں فيصلہ کرے گی۔

ميانمار يورپ ميں بہت پسند کی جانے والی ٹيک لکڑی اور اعلٰی قسم کے جواہرات سے مالا مال ہونے کے باوجود ايشيا کا ايک غريب ملک ہے۔ اصلاحات سے اس کی اقتصادی حالت بھی بہتر ہو سکتی ہے۔

رپورٹ: زابينے ہارٹرٹ مجدحی / شہاب احمد صديقی

ادارت، شادی خان سيف 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید