ميانمار ميں طالبعلم رہنماؤں کی رہائی
14 فروری 2012ميانمار ميں رہا ہونے والے سابق طالبعلم رہنماؤں کی عمريں 20 سے 25 سال کے درميان ہيں۔ سن 2007 کے ’زعفران انقلاب‘ ميں اُنہوں نے بدھ بھکشؤں کے ساتھ مل کر فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کيا تھا۔ يہ چار سابق طالبعلم رہنما ابھی تين ہفتے پہلے ہی رہا ہوئے ہيں اور اس ليے محتاط بھی ہيں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سابق رنگون اور آج کے ينگون کے ايک کيفے ميں جہاں زيادہ تر نوجوان آتے ہيں، بالکل پچھلے کونے ميں بيٹھتے ہيں۔ 23 سالہ ڈی نيئين لنھ نے کہا: ’’وہ ايک بہت برا وقت تھا۔ ميرے والد بھی قيد ميں تھے۔ شروع ميں ہميں مارا پيٹا بھی جاتا تھا ليکن بعد ميں عالمی دباؤ کی وجہ سے حالات کچھ بہتر ہو گئے تھے۔‘‘
ڈی نيئين لنھہ کے والد 1988ء کی بغاوت کے قائدين ميں سے تھے۔ ان کا تعلق ’88 کے اسٹوڈنٹس گروپ‘ سے تھا۔ ان ميں سے بہت سوں نے 20 سال تک جيل ميں گزارے ہیں۔ ڈی نيئين لنھ کے دادا نے 1990ء ميں آنگ سان سوچی کے ساتھ مل کر انتخابات ميں کاميابی حاصل کی تھی لیکن انہيں گرفتار کر کے جيل ميں ڈال ديا گيا جہاں وہ انتقال کر گئے۔ اس زمانے کے طالبعلم ليڈر اب تقريباً 50 سال کے ہيں۔ اُنہوں نے اپنی رہائی کی خوشی ميں ايک تقريب منعقد کی جس ميں لنھ کے والد سو سو لن نے کہا: ’’ميرا بيٹا اور ميں، ہم بہت لمبے عرصے کے بعد ملے ہيں۔ اب ميں بہت ہی خوش ہوں۔‘‘
سوسولن کو اب طويل قيد کے بعد دل کے مرض کا علاج کرانا ہے۔ ڈی نيئين لنھ نے بتايا کہ ملک بھر ميں سياسی قيديوں کی رہائی پر بہت خوشی پائی جاتی ہے اور اُس کی والدہ بھی بہت خوش ہيں۔ ليکن ابھی سارے قيدی رہا نہيں ہوئے ہيں۔
رپورٹ: اُوڈو شمٹ، سنگاپور/ شہاب احمد صديقی
ادارت: افسر اعوان