موٹے حضرات کیلوریز خرچ کریں
21 نومبر 2011معالجین اور ماہرین غذائیات نے موٹاپے میں مبتلا افراد کو مشورہ دیا ہے کہ بھلے وہ کم کھاتے ہوں لیکن وہ اپنے جسم میں موجود کیلوریز کو وربھوک، زش اور جسمانی مشقت سے خرچ یا برن (Burn) کرنے کی بھی ضرور کوشش کریں۔ اس مناسبت سے وہ یہ عمل سارے دن میں مختلف ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ موٹاپے کے مسائل اور علاج کی مناسبت سے تازہ ریسرچ کی تفصیلات امریکی ڈائیٹک ایسوسی ایشن کےجریدے میں شائع ہوئیں ہیں۔ اس ریسرچ کو امریکی ریاست پینسیلوینیا کی میری ووڈ یونیورسٹی کے شعبہ نیوٹریشن اور ڈائیٹک کی اسسٹنٹ پروفیسر جیسیکا باخ مین (Jessica Bachman) کی نگرانی میں مکمل کرنے کے بعد اس کے اعداد و شمار کو عام کیا گیا ہے۔
انہوں نے اپنی ریسرچ میں امریکی شہریوں کی عادات کے علاوہ وزن بڑھنے یا کم ہونے کی دوسری اپروچز کا بھی احاطہ کیا ہے۔ مثلاً ان کے مطابق بعض لوگ بہت زیادہ کھاتے ہیں لیکن ان کا وزن کم رہتا ہے اور اس بارے میں ابھی تک طبی سائنس خاموش ہے۔ امریکہ میں ساٹھ فیصد لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زائد الوزن ہیں۔ باخ مین کے مطابق امریکی شہریوں کی خوراک کی عادات اور وہ کتنی کیلوریز خرچ کرتے ہیں، اس بارے میں بھی ریسرچر کے پاس ٹھوس شواہد اور مناسب اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔
محققین کے نزدیک نارمل وزن کے حامل افراد کے لیے روزانہ کی بنیاد پر اوسطً تین کھانوں کے علاوہ دو اسنیک بہت ہیں جب کہ زائد الوزن افراد کے لیے اوسطاً تین کھانے اور ایک اسنیک کافی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ایک نارمل انسان کو روزانہ کی بنیاد پر تقریباً اٹھارہ سو کیلوریز کو استعمال میں لانا اہم ہے جب کہ زائد الوزن افراد کو انیس سو سے دو ہزار کیلوریز کو خرچ کرنا ضروری ہے۔ باخ مین کے مطابق شدید بھوک میں اسنیک کا استعمال وزن بڑھنے کے عمل کو روک سکتا ہے۔ باخ مین کے مطابق تھوڑا تھوڑا مسلسل کھانے سے کم بھوک لگتی ہے اور زیادہ دیر بھوک برداشت کرنے بعد کھانا بھی زیادہ کھایا جاتا ہے۔ باخ مین کا یہ بھی خیال ہے کہ مسلسل کیلوریز کو خرچ کرنے والے افراد زیادہ ایکٹو ہوتے ہیں۔
پروفیسر باخ مین اور ان کی ٹیم کی ریسرچ کو امریکی قومی ادارہ برائے صحت کی اسپانسر شپ بھی حاصل ہے۔ باخ مین موٹاپے کی ریسرچ میں کھانے کی عادات کو انسانی قد اور بدن کی کمیت کے درمیان تعلق کی پیمائش کے ساتھ دیکھتی ہیں۔ جسم کی کمیت یا باڈی ماس انڈیکس سے مراد انسانی قد اور وزن کے درمیان ربط ہے۔ جن افراد پر ریسرچ کی گئی ان کی عمریں پچیس سے سینتالیس برسوں کے درمیان تھیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف توقیر