مولانا عبدالعزیز کا لال مسجد میں خطبہ
17 اپریل 2009مولانا عبدالعزیز نے کہا کہ انہیں کی قربانیوں کی بدولت سوات میں نظام عدل قائم ہو سکا ہے۔ مولانا عبدالعزیز کے لب و لہجے میں ماضی کی نسبت گرمی گفتار تو کم تھی لیکن انہوں نے پورے ملک میں شرعی نظام کے نفاذ تک جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
’’ہم نے اپنی محنتوں کو تیز کرنا ہے۔ انشاء اللہ نفاذ اسلام کی کوششوں کو ہم جاری رکھیں گے۔ آپ اس کے لئے تیار ہیں؟ جانیں دینا پڑیں توجانیں دیں گے؟ …قربانیاں دینا پڑیں قربانیاں دیں گے؟‘‘
دوسری طرف مولانا کی تقریر نے متحدہ قومی موومنٹ جیسی سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو خاصا پریشان کر دیا ہے اس حوالے سے ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی خوش بخت شجاعت کا کہنا تھا: ’’ وہاں سے جتنا اسلحہ برآمد ہوا اسے ساری دنیا نے دیکھا اور جس قسم کی ذہنیت سامنے آئی وہ سب کے سامنے ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ یہ تو ایک ملک کے دارالحکومت کے اندر اس کے دل میں بیٹھ کر اس میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔‘‘
روشن خیال مبصرین اور ناقدین بھی اس امر پر تعجب کا اظہار کر رہے ہیں کہ انتہائی متنازعہ حالات میں لال مسجد سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والے مولانا عبدالعزیز کو رہا کرنے اور انہیں ایک بار پھر اس مسجد میں امامت کی اجازت کیوں دی گئی ہے۔ جہاں پر جولائی 2007ء میں جمع مسلح طالبان کی کارروائیوں سے ایک درجن کے قریب آرمی کمانڈوز جاں بحق اور کئی سخت گیر عسکریت پسند فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ جامعہ حفصہ سے ملحقہ چلڈرن لائبریری پر کئی ماہ تک قبضے سے لے کر لال مسجد اور مدرسے میں مبینہ عسکریت پسندوں کی موجودگی ایسے کئی امور تا حال جواب طلب ہیں لیکن اس کے باوجود مولانا عبدالعزیز کی ضمانت پر رہائی ملکی اور غیر ملکی ناقدین کے لئے خاصی تشویش کا باعث بن رہی ہے شاید حکومتی ادارے ان کے ذریعے عسکریت پسندوں کو کنٹرول کرنا چاہئے تاہم اگر مولانا عبدالعزیز نے ایسا کیا تو شاید وہ بھی دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ میں شامل ہو جائیں۔