1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسیٰ قلعہ پولیس چوکی پر طالبان کا حملہ، 17 سپاہی ہلاک

امجد علی13 جون 2015

افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند میں علی الصبح کیے جانے والے ایک حملے میں طالبان نے کم از کم سترہ پولیس اہلکاروں کو ہلاک اور تین دیگر کو زخمی کر دیا۔ حملہ آوروں کی تعداد کئی درجن بتائی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fgh3
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul

مختلف خبر رساں اداروں نے متفقہ طور پر بتایا ہے کہ تیرہ جون ہفتے کو طلوعِ آفتاب سے پہلے یہ حملہ ہلمند کے موسیٰ قلعہ ضلعے میں پولیس کے ایک چیک پوائنٹ پر کیا گیا۔ صوبائی پولیس چیف نبی جان ملاخیل نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس حملے میں درجنوں مسلح طالبان نے حصہ لیا۔

ہلمند صوبے کے گورنر کے ترجمان عمر زواک نے سترہ پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حملہ آدھی رات کے کچھ ہی دیر بعد کیا گیا تھا۔ طالبان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ اس چیک پوسٹ سے بھاری مقدار میں ہتھیار، گولہ بارود اور دیگر فوجی ساز و سامان اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے اے ایف پی کو بتایا:’’ہمارے مجاہدین بھاری اور ہلکے ہتھیاروں سے لیس تھے اور اُنہوں نے موسیٰ قلعہ میں پولیس کی ایک چیک پوائنٹ پر حملہ کیا۔

اس حملے میں پولیس کے پچیس سپاہی ہلاک اور تیرہ دیگر زخمی ہو گئے۔‘‘ تاہم اے ایف پی نے واضح کیا ہے کہ طالبان، جو 2001ء میں امریکی سرکردگی میں افغانستان میں کی جانے والی پیشقدمی کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہوئے تھے، عام طور پر مبالغہ آمیز دعوے کرتے ہیں۔

طالبان نے موسمِ گرما شروع ہوتے ہی اپنے حملوں میں تیزی پیدا کرنے کا جو سلسلہ اپریل میں شروع کیا ہے، یہ واقعہ اُسی کی تازہ ترین کڑی ہے۔ تب سے طالبان مسلسل افغانستان کے سرکاری اہداف کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں اور اے ایف پی کے مطابق اب تک کے واقعات دیکھ کر لگتا ہے کہ لڑائی کا یہ سیزن بہت زیادہ خونریز ثابت ہو گا۔

تازہ ترین واقعہ افغان سکیورٹی فورسز کے لیے بھی ایک اور دھچکا ہے، جو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے مکمل تعاون کے بغیر طالبان کے ساتھ برسرِپیکار ہیں۔ نیٹو کا جنگی مشن باضابطہ طور پر دسمبر میں ختم ہو گیا تھا تاہم ساڑھے بارہ ہزار فوجیوں پر مشتمل غیر ملکی دستے، جن کا بڑا حصہ امریکی فوجیوں پر مشتمل ہے، بدستور افغانستان میں موجود ہیں اور افغان سپاہیوں کو تربیت اور تعاون فراہم کر رہے ہیں۔

Afghanistan Taliban Polizei Checkpoint
ہلمند صوبے کے گورنر کے ترجمان عمر زواک نے سترہ پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہےتصویر: Getty Images/AFP/S. Marai

ابھی گزشتہ مہینے کے اوائل میں طالبان نے افغانستان کے دور اُفتادہ شمال مشرقی پہاڑی صوبے بدخشاں میں سکیورٹی چیک پوائنٹس پر اسی طرح کے حملوں میں پولیس کے تیرہ سپاہیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اسی صوبے میں اس سے چند ہفتے پہلے طالبان نے فوج کی چوکیوں پر حملہ کر کے اٹھارہ افغان فوجیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا، جن میں سے کسی کو اُن کے سر قلم کرتے ہوئے ہلاک کیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ طالبان کی طرف سے بڑھتے ہوئے حملوں کا سب سے زیادہ نقصان شہری ہلاکتوں کی صورت میں سامنے آ رہا ہے اور یہ کہ 2015ء کے پہلے پانچ ماہ کے اندر اندر شہری ہلاکتوں کی شرح میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں سولہ فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

صدر اشرف غنی کی حکومت کو اس بناء پر تنقید کا سامنا ہے کہ وہ طالبان کے حملوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ اس ناکامی کی ایک وجہ حکومت کے مختلف دھڑوں کے مابین جاری باہمی کشمکش بھی ہے۔ اس کے علاوہ نئی حکومت ایک طویل عرصے تک کوئی وزیر دفاع مقرر کرنے میں بھی ناکام رہی اور بالآخر گزشتہ مہینے اشرف غنی کی جانب سے محمد معصوم ستانک زئی کو وزیر دفاع کے طور پر نامزد کیا گیا۔ امید کی جا رہی ہے کہ رواں ماہ کے اواخر تک افغان صدر کی طرف سے وزیر دفاع کے لیے اس چوتھی نامزدگی کو قبولیت کی سند مل جائے گی۔