1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسمیاتی تبدیلیاں: شدید ثقافتی اور سماجی اثرات

12 مارچ 2013

موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والے مالی نقصانات کے تخمینے تو وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں تاہم ان کے نتیجے میں بالخصوص ترقی پذیر ملکوں میں ہونے والے ثقافتی اور سماجی نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ اُن کا شمار ہی مشکل ہے۔

https://p.dw.com/p/17vRq
تصویر: picture-alliance/ dpa

خشک سالی، سیلاب، گرمی کی لہریں اور طوفان...گزشتہ چند عشروں سے شدید موسم زیادہ تواتُر اور زیادہ شدت کے ساتھ دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ 1980ء کے عشرے کے اوائل سے صرف ریاست ہائے متحدہ امریکا ہی میں انتہائی شدید موسمی واقعات کی تعداد میں تقریباً پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔

جرمن شہر بون میں اقوام متحدہ یونیورسٹی (UNU) سے وابستہ کوکو وارنر بتاتی ہیں:’’جہاں تک موسمی حالات کی وجہ سے ہونے والے انشورنس نقصانات کا تعلق ہے،گزشتہ تین سال امریکا کے لیے مہنگے ترین تھے۔‘‘

کینیا میں داداب کے مہاجر کیمپ میں ایک صومالی خاتون چاول کا تھیلا لے کر جا رہی ہے
کینیا میں داداب کے مہاجر کیمپ میں ایک صومالی خاتون چاول کا تھیلا لے کر جا رہی ہےتصویر: Getty Images

دنیا کی سب سے بڑی انشورنس کمپنی میونخ رے کے ایک مطالعاتی جائزے کے مطابق صرف سن 2012ء کی پہلی ششماہی میں امریکا میں سمندری اور باد و باراں کے طوفانوں کے باعث ہونے والے مالی نقصانات کا تخمینہ 8.8 ارب ڈالرز لگایا گیا تھا۔

تاہم انشورنس کمپنیاں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج کی محض ایک نامکمل تصویر پیش کر پاتی ہیں۔ کیونکہ اُن نقصانات کا تو اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا، جو انسانوں کی سماجی اور ثقافتی زندگی پر اپنے آبائی رہائشی علاقوں کی تباہی اور اُن سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہو جانے کی صورت میں مرتب ہوتے ہیں۔ اس صورتِ حال کا سامنا بھی خاص طور پر اُن انسانوں کو کرنا پڑتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمے دار بھی نہیں ہیں یعنی جنوبی بحر الکاہل اور بحیرہء کیریبین کی جزیرہ ریاستیں اور سب صحارا افریقہ اور لاطینی امریکا کے ترقی پذیر ممالک۔

بون کی اقوام متحدہ یونیورسٹی کے ماحول اور انسانی سلامتی کے انسٹیٹیوٹ EHS نے افریقہ، ایشیا، جنوبی بحرالکاہل اور لاطینی امریکا کے 9 ملکوں میں ایک مطالعاتی جائزے کا اہتمام کیا۔ اس کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں پر انسانوں کے رد عمل کا پتہ چلانا تھا۔ ماہرین یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ تب کیا ہوتا ہے، جب لوگ موسمیاتی تبدیلیوں اور اُن کے نتائج کے ساتھ مطابقت پیدا نہیں کر پاتے۔ EHS انسٹیٹیوٹ کی کوکو وارنر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کیسے بنگلہ دیش کے ساحلی علاقوں کی زمینیں سیم اور تھور کا شکار ہو چکی ہیں اور کیسے کسان اپنے کھیتوں میں چینی بکھیر کر اُنہیں قابل کاشت بنانے کی مایوسانہ اور ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

2011ء میں دنیا بھر میں 34 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج کی گئی، جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے
2011ء میں دنیا بھر میں 34 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج کی گئی، جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہےتصویر: picture-alliance/Andreas Frank

جب چھوٹے کسانوں کے لیے اپنے دیہات میں روزی کمانا مشکل ہو جاتا ہے تو گھر کا سربراہ محنت مزدوری تلاش کرنے کے لیے شہر کا رُخ کرتا ہے۔ پھر ہر گھر کی ایک سی کہانی ہوتی ہے یعنی ماں گاؤں ہی میں رہ جاتی ہے، اپنے بچوں اور گھر کے بزرگوں کی دیکھ بھال کرتی ہے اور ساتھ ساتھ چھوٹی موٹی کھیتی باڑی بھی کرتی ہے۔ ماں بچوں کو کافی مقدار میں کھانا دینے کے لیے خود کم کھاتی ہے۔ بچے اسکول چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور کام کاج کرنے لگتے ہیں۔ بالآخر پورے خاندان کے لیے گھر بار چھوڑ کر کہیں اور نقل مکانی کر جانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہتا۔ تب سماجی روابط، گھریلو زندگی اور دیہی ڈھانچے بکھر کر رہ جاتے ہیں۔

امریکی ماہر بشریات اینتھنی اولیور اسمتھ کو لاطینی امریکا میں بہت سے تحقیقی منصوبوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب زمین سے رشتہ کٹتا ہے تو لوگ اپنی ثقافتی شناخت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں:’’مقامی باشندوں اور فطری ماحول میں زندگی گزارنے والے قبائل کے لیے اُن کا ماحول ہی اُن کی شناخت، اُن کے مذہب اور دنیا کے بارے اُن کے تصور کی بنیاد ہوا کرتا ہے۔ جب ان قبائل کو کسی اچانک ماحولیاتی آفت یا آہستہ آہستہ نظر آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں گھر بار چھوڑنا پڑتا ہے تو اِس کے اُن کی ثقافتی اور سماجی زندگی پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘‘

دنیا کے اس نقشے میں ان ممالک کی نشاندہی کی گئی ہے، جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج خاص طور پر بھگتنا پڑ رہے ہیں
دنیا کے اس نقشے میں ان ممالک کی نشاندہی کی گئی ہے، جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج خاص طور پر بھگتنا پڑ رہے ہیں

پھر کئی صدیوں کا وہ سارا علم، جو اُن کے بزرگوں کے ذریعے اُن تک پہنچا ہوتا ہے، بے فائدہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ بارش اور خشک سالی کے وقفے طویل ہونے لگیں تو وہ بھولنے لگتے ہیں کہ بیج بونے کا مناسب وقت کون سا ہے۔ جب صنعتی پیمانے پر ماہی گیری کی وجہ سے یا پھر مسلسل زیادہ سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والے سمندروں میں تیزابیت بڑھنے کی وجہ سے مچھلیوں کے ذخائر کم ہونے لگتے ہیں اور چھوٹے ماہی گیروں کے لیے مچھلیاں پکڑ کر گزارا کرنا مشکل ہو جاتا ہے تو پھر وہ اپنی روایتی کشتیاں تیار کرنے کا فن بھی بھولنے لگتے ہیں۔

امیر صنعتی ممالک زیادہ سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج کر رہے ہیں اور یوں موسمیاتی تبدیلیوں کے سلسلے میں اصل قصور وار ہیں تاہم امریکی ماہر بشریات اینتھنی اولیور اسمتھ کے مطابق ’ابھی مغربی دنیا اپنے اس قصور پر حقیقت پسندی کے ساتھ غور کرنے کے معاملے میں بہت زیادہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے‘۔

M.Gehrke/aa/aba